Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اشہر حرم میں رفاعی جنگ جائز ہے : یہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر حج کے سلسلہ میں جنگ کی نوبت آجائے تو اشہر حرم میں دفاعی جنگ جائز ہے۔ البتہ حدود سے تجاوز اللہ کو پسند نہیں ہے۔ یعنی نہ تو یہ بات جائز ہے کہ تم خود اشہر حرم میں جنگ کے لیے پہل کرو اور نہ یہ جائز ہے کہ مدافعت کے لیے جتنی کارروائی ضروری ہے، اس سے آگے کوئی قدم اٹھاؤ البتہ مدافعت کرنے کے تم پورے طور پر مجاز ہو، اشہر حرم یا خود حرم کا حترام اس میں کسی پہلو سے مانع نہیں ہے بلکہ یہ عین ان کے احترام کا تقاضا ہے۔ اس نکتہ کی تفصیل آگے کی آیات میں آرہی ہے۔ حج کے ذکر کے ساتھ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہوئی کہ اس وقت تک حرم پر مشرکین کا قبضہ تھا اس وجہ سے اس بات کا اندیشہ نہایت قوی تھا کہ اگر مسلمان حج کے لیے جائیں گے تو کفار روکیں گے اور جنگ کی نوبت آجائے گی۔ بالخصوص جب کہ مشرکین پر اس دوران میں یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوچکی تھی کہ مسلمانوں نے بیت اللہ کو اپنا قبلہ قرار دے لیا ہے اور ان کا دعوی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے اس گھر کی تولیت کے اصلی وارث وہی ہیں۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہوا کہ مسلمانوں کو حرم اور اشہر حرم ہے احکام و آداب سے متعلق وہ ضروری ہدایات دے دی جائیں جو آگے کے امکانی حالات میں ان کی رہنمائی کرسکیں۔ یہ حقیقت یہاں پیش نظر رہے کہ حرم اور اشہر حرم کے احترام کے باب میں پوری قوم عرب کے احساسات نہایت نازک تھے۔ ان میں لڑنا بھڑنا سب ہی کے نزدیک سب سے بڑی معصیت تھی اس وجہ سے مسلمان بھی اس وقت تک ان میں کسی جنگ کے لیے، اگرچہ وہ مدافعت ہی میں کیوں نہ ہو، تیار نہیں ہوسکتے تھے جب تک قرآن اس کی اجازت نہ دے۔
Top