Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تم بھی ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا2
2 اور تم بھی اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو نقص عہد اور عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہوئے تم سے لڑیں اور دیکھو حد سے تجاوز نہ کرنا کہ کہیں ان کے نقص عہد کے بغیر ان سے لڑنے لگو کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے شرح سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور پسند نہیں کرتا۔ (تیسیر) بعض لوگوں نے اس کو جہاد کی پہلی آیت قرار دیا ہے لیکن اس میں اقدام کی شرط ہے پھر آگے کی آیت سے جو مطلقاً قتال کا حکم دیتی ہے اس کو منسوخ ٹھہرایا ہے لیکن فقیر کے نزدیک محقق قول یوں ہے کہ ان آیتوں میں ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ 6؁ھ کے ذیقعدہ میں جب نبی کریم ﷺ نے عمرے کا ارادہ کیا اور مکہ تک پہنچ گئے تو کفار مکہ نے آپکو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ وہاں ایک صلح نامہ لکھا گیا جس کا نام صلح حدیبیہ ہے اس صلح نامہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آئیں تو ہم ان کو عمرہ ادا کرنے دیں گے۔ چنانچہ اس معاہدہ کے بعد مسلمان واپس چلے گئے معاہدہ کی تفصیل تو انشاء اللہ سورة فتح میں آئے گی اور احصار کے چند مسائل ابھی چند آیتوں کے بعد آتے ہیں اس سال واپس ہونے کے بعد جب آئندہ مسلمانوں نے عمرہ کی قضا کا ارادہ کیا تو کفا رکی شرارت سے یہ خیال داسن گیر ہوا کہ کہیں امسال پھر انہوں نے روکا اور لڑنے پر آمادہ ہوگئے تو ہماری کیا حیثیت ہوگی۔ حرم میں قتال کا حکم نہیں اسی طرح اشہر حرم ذیقعدہ ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ان چار مہینوں میں بھی لڑنے کا حکم نہیں تو ان حالات میں ہم کو کیا کرنا ہوگا اس پر یہ احکام نازل کئے گئے یہ ہوسکتا ہے کہ جنگ کرنے کی یہ پہلی اجازت ہو اور ہوسکتا ہے کہ جنگ کرنے کی اجازت اور جہاد کے حکم کی پہلی آیت سورة حج کی ـاٰیت اذن للذین یقتلون ہو جو شان نزول ہم نے عرض کیا ہے اس کی روشنی میں آ یتوں کے ترجمہ کو پڑھناچاہئے کہ اس وقت کفار مکہ ایک معاہد قوم ہیں مسلمان معاہدے کی رو سے عمرے کی قضا کرنے کو جاناچاہتے ہیں خطرہ یہ ہے کہ کفار عہد کی خلاف ورزی کریں تو کیا ہو۔ ادھر حرم کعبہ کا احترام ، پھر اشہر حرم کی حرمت، پھر معاہدہ ان سب باتوں کے پیش نظر ان آیتوں کو سمجھا جائے تو انشاء اللہ کوئی دشواری نہ ہوگی فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد اور اس کے کلمہ کی بلندی اور اس کی رضا جوئی مقصود ہو۔ جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ ! ایک شخص اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے لڑتا ہے ایک شخص اپنی حمیت اور اپنی بات کی پچ پر لڑتا ہے ایک آدمی لوگوں کے دکھانے کو لڑتا ہے ان میں کون سی لڑائی فی سبیل اللہ ہوگی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا من قاتل لتکون کلمۃ اللہھی العلیا کہ ان لڑائیوں میں تو کوئی بھی فی سبیل اللہ نہیں ہے فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو صرف اس غرض کے لئے جنگ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کا دین اونچا ہوجائے اور یہ جو فرمایا جو تم سے لڑیں یہ اس بنا پر کہ ابھی کفار عرب کے عام قتل کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، یہ احکام بعد میں نازل ہوئے کہ جزیرۃ العرب میں ان کفار کو بسنے ہی نہ دو ۔ جیسا کہ آگے آتا ہے یا یہ لوگ اسلام قبول کرلیں یا قتل کردئیے جائیں ان کفار عرب سے جزیہ بھی نہ قبول کیا جائے غرض ان کو یہاں جب تک یہ اسلام قبول نہ کریں رہنے ہی نہ دیا جائے حد سے تجاوز نہ کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی عہد شکنی کے بدول ان سے قتال نہ کرو جو لوگ آیت کو ابتدائی جہاد کی فرضیت کے لئے قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ تم سے نہ لڑیں مثلاً بڈھے، بیمار، بچے عورتیں، دیوانے اور وہ جو تم کو امن کا پیغام دے دیں اور وہ فقیر فقراء جو راہب خانوں میں رہتے ہوں اور اپاہج لوگ یہ مستثنیٰ ہیں ان کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ یہ لڑنے والے نہیں ہیں اگر کوئی ان کو قتل کرے گا تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا ہوگا اور احضر نے جو محققین کا قول نقل کیا ہے اس تقدیر پر ولا تعتدوا کا مطلب یہ ہے کہ تم خود اپنی طرف سے عہد شکنی کرکے ان کے قتل میں پہل نہ کرنا کیونکہ یہ اعتدا ہے مگر ہاں جب وہ عہد شکنی کرکے تم سے لڑنے پر آمادہ ہوجائیں تو پھر تم کوتاہی نہ کرنا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حج کے ساتھ یہ مذکور بھی ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت شہر مکہ جائے امن تھا اگر یہاں دشمن کو دشمن پا تو بھی کچھ نہ کہتا اور حج کے اول و آخر میں تین مہینے ذیقعد، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا رجب کہ وہ بھی وقت زیارت تھا یہ چار مہینے وقت امان تھے کہ تمام ملک عرب میں راہیں ج اری ہوتیں اور لڑائی موقوف رہتی۔ اللہ تعالیٰ ان کا حکم فرماتا ہے ان بیچ میں اور بھی لڑائی کے حکم اور جہاد کے آداب فرماتا ہے یہ جو فرمایا کہ زیادتی نہ کرو اس کے معنی یہ کہل ڑائی میں لڑکے اور عورتیں اور بوڑھے قصداً نہ مارئیے لڑنے والوں کو مارئیے۔ (موضح القرآن) ہم نے اوپر خلاصہ عرض کردیا ہے شاہ صاحب (رح) کے حاشیہ پر کچھ عر ض کرنے کی ضرورت نہیں مزید تفصیل مطلوب ہو تو روح البیان اور روح المعانی ملاحظہ کیجئے۔ ( تسہیل )
Top