Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو، بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
مسلمان عمرہ کے لیے آئے تو کفار لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ حج کے بیان کے ساتھ لڑائی کے حکم کی مناسبت یہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں صرف ان کفار سے لڑنے کا حکم ہے جو خود لڑنے میں پہل کریں ”وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ“ (زیادتی نہ کرو) کا معنی انھوں نے یہ کیا کہ تم لڑائی میں پہل نہ کرو، پھر ان مفسرین نے اسے ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیا جن میں تمام کفار سے لڑنے کا حکم ہے، وہ پہل کریں یا نہ کریں، مثلاً : (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً) [ التوبۃ : 36 ] ”اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔“ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ) [ التوبۃ : 133 ]”ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمہارے قریب ہیں۔“ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ) [ التوبۃ : 29 ] ”لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر۔“ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت نہ دوسری آیات کے خلاف ہے، نہ منسوخ ہے اور نہ ”وَلَا تَعْتَدُوْا“ کا معنی یہ ہے کہ لڑنے میں پہل نہ کرو، بلکہ اس میں مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے کہ جب وہ لڑنے سے دریغ نہیں کرتے تو تم بھی ان سے لڑو اور جن جن جگہوں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی انھیں وہاں سے نکالو۔ (ابن کثیر) اور ”وَلَا تَعْتَدُوْا“ کا معنی ابن عباس ؓ اور عمر بن عبد العزیز ؒ نے یہ بیان فرمایا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو، نہ بوڑھوں کو اور نہ اس کو جو صلح کی پیش کش کرتا ہے اور لڑنے سے ہاتھ روک لیتا ہے، اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرو گے۔ (ابن کثیر) بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اسے اور باقی مومنوں کو نصیحت فرماتے : ”اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جو اللہ کا منکر ہے اس سے لڑو۔ جنگ کرو، خیانت نہ کرو، نہ عہد شکنی کرو، نہ مثلہ کرو، نہ بچوں کو قتل کرو اور نہ درویشوں، راہبوں کو۔“ [ مسلم، الجہاد، باب تأمیر الإمام الأمراء علی البعوث۔۔ : 1731 ] امام طبری نے فرمایا : ”یہی معنی درست ہے، کیونکہ نسخ کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل کے بغیر دعویٰ تو ہر شخص کرسکتا ہے۔“ ظاہر ہے کہ اس پیشکش کے بعد کہ ”مسلمان ہوجاؤ یا جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ“ اگر کوئی شخص نہیں لڑتا، بلکہ مسلمان ہوجاتا ہے، یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس سے لڑنا زیادتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو زیادتی کرنے والے پسند نہیں۔
Top