Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 191
وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ١ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِ١ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ١ؕ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
وَاقْتُلُوْھُمْ : اور انہیں مار ڈالو حَيْثُ : جہاں ثَقِفْتُمُوْھُمْ : تم انہیں پاؤ وَاَخْرِجُوْھُمْ : اور انہیں نکال دو مِّنْ : سے حَيْثُ : جہاں اَخْرَجُوْكُمْ : انہوں نے تمہیں نکالا وَ : اور الْفِتْنَةُ : فتنہ اَشَدُّ : زیادہ سنگین مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا : اور نہ تُقٰتِلُوْھُمْ : ان سے لڑو عِنْدَ : پاس الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام (خانہ کعبہ) حَتّٰى : یہانتک کہ يُقٰتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں فِيْهِ : اس میں فَاِنْ : پس اگر قٰتَلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں فَاقْتُلُوْھُمْ : تو تم ان سے لڑو كَذٰلِكَ : اسی طرح جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکے سے) وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔ اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرڈالو۔ کافروں کی یہی سزا ہے
وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ ( اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں پاؤ) مقاتل بن حبان کا قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام سے میں کہتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مخصص ہے اقتران کی وجہ سے جیسا کہ ارشاد باری : و احل اللہ البیع و حرام الربٰوا اس لیے کہ ناسخ متراخی ہوتا ہے ثقف کسی شئ کو تیزی سے اچھی طرح پالینا علم ہو یا عمل یہ لفظ غلبہ کو متضمن ہے تو معنی یہ ہیں کہ جس جگہ ان کے قتل پر تم قادر ہو۔ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ ( اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے) یعنی مکہ سے اور یہ فتح مکہ کے دن ان لوگوں کے ساتھ کیا گیا جو مسلمان نہ ہوئے تھے۔ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ( اور فساد قتل سے بڑھ کر ہے) فتنہ سے مراد کفار کا خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا۔ اشد کے یہ معنی ہیں کہ باعتبار گناہ کے اللہ کے نزدیک بہت برا ہے اور قتل سے یہ مطلب ہے کہ مسلمان ان کو قتل کریں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ قتل ایک خاص وقت میں مباح کردیا تھا۔ علامہ ابن جریر نے حضرت مجاہد اور ضحاک اور قتادہ اور ربیع اور ابن زید کا قول اسی طرح نقل کیا ہے۔ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ( اور نہ لڑو ان سے مسجد حرام کے پاس) یعنی حرم کے پاس۔ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ( جب تک کہ نہ لڑیں وہ تم سے اس جگہ پس اگر وہ لڑیں تم سے ‘ تو قتل کرو ان کو) یعنی حرم میں اگر وہ قتال شروع کریں تو تم بھی ان سے وہیں لڑو۔ حمزہ اور کسائی نے وَلَا یَقاتلوھم حتی یقتلوکم فان قتلوکم الخ میں لا تقتُلُوْا یَقْتُلُوْا قَتَلُوْاکو چاروں جگہ بغیر الف کے پڑھا ہے اس تقدیر پر یہ الفاظ قتل سے ہوں گے مقاتلہ سے نہ ہوں گے اور معنی یہ ہوں گے کہ مت قتل کرو بعض کفار کو جب تک کہ وہ نہ قتل کریں تم سے بعض کو۔ چناچہ عربقتَلَنَا بنو فلان ( ہم کو فلاں قبیلہ نے قتل کیا) بولتے ہیں اور مراد یہ لیتے ہیں کہ ہمارے میں سے بعض کو قتل کیا اور باقی قراء نے اول کے تین مقاموں میں الف سے پڑھا ہے اور آخر میں بےالف پڑھا ہے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا کہ بلد حرام میں ابتداء قتال کی کرنا حلال نہ تھی پھر آیت : وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ( اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا یہ قول قتادہ کا ہے مقاتل نے فرمایا ہے کہ اس حکم کو سورة برأۃ کی آیت سیف نے منسوخ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک حق یہ ہے کہ اس آیت کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں ہے قتال کی ابتداء کرنا حرم میں اب بھی ویسے ہی حرام ہے اور یہی قول مجاہد اور بہت سے علما کا ہے اس قول کی تائیدبخاری و مسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ ابن عباس اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فتح مکہ کے روز فرمایا کہ اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے دن باحرمت کیا ہے اس لیے قیامت تک اللہ کا حرام کردہ حرام رہے گا مجھ سے پہلے کسی کو اس میں قتل و قتال کی اجازت نہ ہوئی اور میرے واسطے بھی دن کی ایک ساعت کے لیے صرف حلال ہوا ہے اس کے بعد بد ستور قیامت تک حرام ہے یہاں کی گھاس کا کانٹا وغیرہ (تک بھی) نہ کاٹا جائے نہ یہاں کا شکار بھگایا جائے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مکہ میں ہتھیار اٹھانا کسی کو حلال نہیں۔ (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے) كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ( یہی سزا ہے کافروں کی) یعنی جیسا انہوں نے کیا ہے ویسا ہی ان کے ساتھ کیا جائے۔
Top