Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو بیشک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو،
حکم نہم جہاد و قتال
اس پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد و قتال ممنوع تھا اس وقت کی تمام آیات قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور عفو و درگذر کی ہی تلقین تھی ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے اس آیت میں قتال کفار کا حکم آیا (قالہ الربیع بن انس وغیرہ) اور صدیق اکبر سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ قتال کفار کے متعلق پہلی آیت یہ ہے، اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا مگر اکثر حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین کے نزدیک پہلی آیت سورة بقرہ کی آیت مذکورہ ہی ہے اور صدیق اکبر نے جس کو پہلی فرمایا ہے وہ بھی ابتدائی آیتوں میں ہونے کے سبب پہلی کہی جاسکتی ہے،
اس آیت میں حکم یہ ہے کہ مسلمان صرف ان کافروں سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پر قتال کے لئے آویں اس سے مراد یہ ہے کہ عورتیں، بچے، بہت بوڑھے اور اپنے مذہبی شغل میں دنیا سے یکسو ہو کر لگے ہوئے عبادت گذار راہب، پادری وغیرہ اور ایسے ہی اپاہج ومعذور لوگ یا وہ لوگ جو کافروں کے یہاں محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حکم آیت کا صرف ان لوگوں سے قتال کرنے کا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں قتال کریں اور مذکورہ قسم کے سب افراد قتال کرنے والے نہیں اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت یا بوڑھا یا مذہبی آدمی وغیرہ کفار کی طرف سے قتال میں شریک ہوں یا مسلمانوں کے بالمقابل جنگ میں ان کی مدد کسی طرح سے کررہے ہوں ان کا قتل جائز ہے کیونکہ وہ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ میں داخل ہیں (مظہری قرطبی، جصاص)
رسول اللہ ﷺ کی ہدایات جو مجاہدین اسلام کو بوقت جہاد دی جاتی تھیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات مذکور ہیں صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر ایک حدیث میں ہے، نھی رسول اللہ ﷺ عن قتل النسآء والصبیان، یعنی رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔
ابوداؤد میں بروایت انس جہاد پر جانے والے صحابہ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایات منقول ہیں تم اللہ کے نام پر اور رسول اللہ کی ملت پر جہاد کے لئے جاؤ کسی بوڑھے ضعیف کو اور چھوٹے بچے کو یا کسی عورت کو قتل نہ کرو (مظہری)
حضرت صدیق اکبر نے جب یزید بن ابی سفیان کو ملک شام بھیجا تو ان کو یہی ہدایت دی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبادت گذار اور راہبوں کو اور کافروں کی مزدوری کرنے والوں کو بھی قتل نہ کریں جبکہ وہ قتال میں حصہ نہ لیں (قرطبی)
آیت کے آخر میں وَلَا تَعْتَدُوْا کا بھی جمہور مفسرین کے نزدیک یہی مطلب ہے کہ قتال میں حد سے تجاوز نہ کرو کہ عورتوں بچوں وغیرہ کو قتل کرنے لگو۔
Top