Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ذی القعدہ 6 ھ میں آپ ﷺ ادائے عمرہ کے قصد سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے اس وقت تک مکہ مشرکین کے قبضہ میں تھا، ان لوگوں نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے سے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا، آخر کار بڑی گفتگو کے بعد یہ معاہدہ قرار پایا کہ آئندہ سال آکر عمرہ کریں چناچہ ذی قعدہ 7 ھ میں قضائے عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے لیکن آپ کے اصحاب کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کرکے حملہ آور نہ ہوں تو ایسی حالت میں نہ سکوت مصلحت ہے اور اگر مقابلہ کیا جائے تو ماہ محترم میں قتال لازم آتا ہے اس لئے کہ ذی القعدہ چار محترم مہینوں میں سے ایک ہے وہ چار محترم مہینے یہ ہیں۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب، مسلمان، اس گومگو کی صورت حال سے پریشان تھے، تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرمائیں، کہ ان معاہدہ کرنے والوں کے ساتھ معاہدہ کی رو سے تم اپنی جانب سے لڑائی کی ابتداء نہ کرو، لیکن اگر وہ لوگ عہد شکنی کریں اور تم سے لڑنے پر آمادہ ہوجائیں تو اس وقت تم کسی قسم کا اندیشہ نہ کرو اور بےتکلف تم بھی ان سے لڑو۔ اس آیت میں حکم یہ ہے کہ قتال صرف ان کافروں سے کریں جو مسلمانوں سے آمادہ قتال ہوں مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، مذہبی پیشواؤں جو دنیا سے یکسر ہو کر مذہبی شغل میں لگے ہوں مثلاً راہب پادری اسی طرح اپاہج و معزور یا وہ لوگ جو کافروں کے یہاں محنت مزدوری کا کام کرتے ہوں جو کافروں کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں، اسلئے آیت میں جہاد کا حکم ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں سے قتال کریں، اگر مذکورہ لوگوں میں سے کوئی شخص جنگ میں کافروں کی کسی طرح کی بھی مدد کریں تو ان کا قتل جائز ہے اس لئے کہ یہ لوگ ” اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ “ میں داخل ہیں۔ (مظہری، جصاص اسلام صرف ان ہی افراد کے مقابلہ میں قتال کا حکم دیتا ہے جو واقعی جنگ میں شریک ہوں غیر مقاتلین یا عام رعایا سے جنگ کا کوئی تعلق نہیں ہے آج کل عوام کے سروں پر بم برسادینے پر امن شہریوں پر ہوائی تاخت کرنے اور ان پر زہر یلی گیس چھوڑنے بلکہ آگ لگانیوالے نیپام بم گرانے کے مہذب ترین آئیں سے اسلام کا حربی قانون بالکل نا آشنا ہے سینکڑوں کو نہیں بلکہ ہزاروں بےگناہوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دینے کے بعد صرف (سَوْری Sorry) کہہ دینا آج کل کی مہذب دینا کو ہی زیب دیتا ہے اسلام کو نہیں۔
Top