Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے مت بڑھو بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ وَلَاتَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ (اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے مت بڑھو، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا) (190) حج کے بعد جہاد کے ذکر کا سبب حج کے ذکر کے بعد قتال اور جہاد کا ذکر عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ حالات کے جھروکوں میں جھانک کردیکھتے ہیں تو تب اندازہ ہوتا ہے کہ پروردگار نے یہاں قتال کا ذکر کیوں فرمایا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین ہجری میں حج فرض کردیا تھا اور سورة البقرۃ نے نازل ہو کر مسلمانوں کو یہ آگاہی دی تھی کہ ملت ابراہیمی کے اصل وارث تم ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس پیغمبر کے آنے کی دعائیں مانگی تھیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور جس امت مسلمہ کے اٹھائے جانے کی استدعا کی تھی وہ امت مسلمہ وہ ہے جو آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے نتیجے میں آپ پر ایمان لا کر اور آپ کی دعوت کو قبول کرکے تشکیل پارہی ہے۔ ان تمام باتوں پر غور کرنے سے ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ چونکہ بیت اللہ اس امت کا قبلہ ہے اور یہ امت ہی اس کی وارث ہے اور وہ اللہ کا گھر اس انقلاب کا مرکز ہے جو اس امت کے ہاتھوں برپا کیا جارہا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ گھر ملت ابراہیمی کے ایسے نام نہاد دعوے داروں کے ہاتھ میں رہے جن کا کوئی رشتہ ملت ابراہیم سے نہیں۔ حضرت ابراہیم نے اس گھر کو توحید کا مرکز بنایا تھا اور انھوں نے اس گھر کو بت خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ اگرچہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بتوں کا طواف بھی کرتے ہیں اور ان کی پوجا کے تمام مراسم بھی بجالاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اس گھر کو واگزار کرانا اور دوبارہ اس کو توحید کا مرکز بنانا اور وہاں سے تمام دنیا کو ہدایت فراہم کرنا اب امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور یہ بات سمجھنے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں کہ جب وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے نکلیں گے یا کم از کم اس گھر کا طواف کرنے کے لیے ہی جائیں گے تو قریش یقینا مزاحم ہوں گے۔ اس صورتحال میں اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ مسلمانوں کو بتایاجائے اگر اس مزاحمت کی نوبت آجائے اور قریش مکہ کسی طرح بھی اس گھر کی تولیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوں اور معاملہ جنگ تک پہنچ جائے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ تو اس آیت کریمہ میں اس بات کا حکم دیا جارہا ہے کہ ایسی صورت میں تمہیں نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہمارا حکم ہے کہ ان سے قتال کرو کیونکہ تمہارا یہ قتال اللہ کے راستے میں ہے نفس کے راستے میں نہیں اور پھر تم خود حملہ آور نہیں ہورہے ہو بلکہ دشمن کی برپا کی ہوئی جنگ میں مجبوراً شریک ہو رہے ہو۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ جب تک کفر تمہیں لڑنے پر مجبور نہ کردے اس وقت تک پہل نہ کرنا اور جب تم دیکھو کہ جنگ کے علاوہ کسی اور طرح سے کعبۃ اللہ کا راستہ کھل سکتا ہے جیسے معاہدہ حدیبیہ سے کھل گیا تو پھر خود طاقت استعمال کرنا حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ اس لیے دیکھنا حدود سے تجاوز نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ نفرت کرتا اور ان کو سزا دیتا ہے۔ اس حکم کے بعدسوال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ قریش کے ساتھ یہ تصادم حدود حرم میں ہو جو بڑھتے بڑھے مسجد حرام تک بھی پہنچ سکتا ہے اور حدود حرم تو ایسی جگہ ہے جہاں کسی جاندار کو چھیڑنے کی بھی ممانعت ہے۔ ایسی جگہ میں تو جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور حرم کے بارے میں یہ تصور صرف مسلمانوں کا ہی نہیں قدیم سے عربوں کا بھی چلا آرہا ہے وہ بھی بہت حد تک اس پرکاربند تھے۔ اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتے تو حرم کے احترام میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ تو کیسے ممکن تھا کہ مسلمان حدود حرم میں ان سے لڑیں اس لیے آنے والی آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
Top