Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 32
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْلَا : کیوں نہ نُزِّلَ : نازل کیا گیا عَلَيْهِ : اس پر الْقُرْاٰنُ : قرآن جُمْلَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی بار كَذٰلِكَ : اسی طرح لِنُثَبِّتَ : تاکہ ہم قوی کریں بِهٖ : اس سے فُؤَادَكَ : تمہارا دل وَرَتَّلْنٰهُ : اور ہم نے اس کو پڑھا تَرْتِيْلًا : ٹھہر ٹھہر کر
اور کافر یہ کہتے ہیں کہ اس شخص پر قرآن اک بارگی (پورا) کیوں نہیں نازل کردیا گیا ؟ ،35۔ اس طرح اس لئے کہ ہم اس کے ذریعہ سے آپ کے دل کو قوی رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہرا ٹھہرا کر اتار ہے،36۔
35۔ یعنی اگر خدا کا کلام ہوتا تو رفتہ رفتہ کیوں نازل ہوتا۔ یہ تو (نعوذ باللہ) انہیں کا کلام ہے، سوچ سوچ کر حسب موقع تھوڑا تھوڑا تصنیف کرتے رہتے ہیں۔ 36۔ یعنی ایک بڑی مصلحت اس تدریجی نزول قرآن میں تو رسول کی تقویت قلب ہے۔ مشائخ نے کہا ہے کہ ثمرات ومقامات میں جو تاخیر و تدریج ہوتی ہے اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ ثبات ورسوخ حاصل ہوتا جائے، جو چیز جلدی آتی ہے، وہ جلدی نکل بھی جاتی ہے۔ سالک کو دیر ہونے سے تنگ نہ ہونا چاہیے بلکہ صبر کرنا چاہیے۔ علماء کے ہاں تعلیم کا سبقا سبقا ہونا اور مشائخ کے ہاں افادہ وافاضہ میں تدریج اسی آیت سراپا حکمت کی ماتحتی میں ہے۔ نیت کا مستحکم ہونا، قلب کا تحمل پر قادر ہونا، ملکہ علمی کا راسخ ہونا، سب اسی کے برکات ہیں۔
Top