Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(نہیں) بلکہ اصل یہ ہے کہ جو کوئی بھی بدی اختیار کرے گا اور اس کا گناہ اس کو گھیر لے گا سو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں،276 ۔ اس میں ہمیشہ پڑے رہنے والے،277 ۔
276 ۔ نجات وعدم نجات کا اصل قانون اب بیان ہورہا ہے کہ اسے نسل وقوم سے کوئی واسطہ ہی نہیں (آیت) ” احاطت بہ خطیتہ۔ “ قصدا بدی کی راہ اختیار کرنا اور معصیت سے پوری طرح گھر جانا کہ خود ایمان کے لیے گنجائش ہی باقی نہ رہ جائے، صرف انہیں کے لیے ممکن ہے جو سرے سے اہل باطل ہوں ، ، اور ان کی موت کفر اور بےدینی ہی پر آئے۔ مومن کیسا ہی بدعمل ہو بہرحال اس آیت کا مصداق تو نہ ہوگا۔ کم ازکم زبان سے اقرار اور قلب سے تصدیق کا درجہ تو اسے حاصل ہی ہوگا۔ تمام اکابر اہل سنت نے یہاں مراد کفر ہی سے لی ہے۔ اے اشرک باللہ ومات علیہ (ابن عباس ؓ السیءۃ الکفر والشرک قال ابن عباس ؓ ومجاہد “ (بحر) المومنون لایدخلون فی حکم ھذہ الایۃ (معالم۔ عن الواحدی) فاما اؔ ذا مات مومنا فاعظم الطاعات وھو الایمان معہ فلایکون الذنب محیطا بہ فلا یتناولہ النص (مدارک) بعض اہل باطل (معتزلہ دخوارج وغیرہ) نے آیت سے جو مومن عاصی کی عدم مغفویرت پر استدلال کرنا چاہا ہے، وہ صریحا باطل ہے۔ 277 ۔ خلود کے معنی اگرچہ مدت طویل کے بھی ہیں۔ لیکن اہل دوزخ اور اہل جنت کے سلسلہ میں جہاں جہاں اس لفظ کا استعمال قرآن مجید میں ہوا ہے، اہل سنت کا اجماع ہے کہ اس سے مراد دوام یا ہمیشگی ہے، اور اس کی تاکید وتائید میں قرآن مجید میں (آیت) ” خلدین فیھا “ کے ساتھ ساتھ جابجا ابدا بھی آیا ہے۔ والمراد بالخلودالدوام (روح) ومن الناس من حمل الخلود علی اصل الوضع وھو اللبث الطویل لیس بشی لان فیہ تھوین الخطب فی مقام التھویل مع عدم ملائمتہ حمل الخلود فی الجنۃ علی الدوام (روح) ۔
Top