Al-Qurtubi - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
ہاں جو برے کام کرے اور اسکے گناہ (ہر طرف سے) اس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے
آیت نمبر 81 تا 82 اس میں تین مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بلیٰ یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا تم نے ذکر کیا ہے۔ سیبویہ نے کہا بلیٰ اور نعم اسم نہیں ہیں۔ یہ بل وغیرہ کی طرح دونوں حرف ہیں۔ یہ ان کے قول لن تمسنا النار کا رد ہے۔ کو فیوں نے کہا : اس کی اصل بل ہے جس کا معنی پہلی کلام سے اضراب ہوتا ہے۔ اس پر یا کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ وقف عمدہ ہوجائے یا ایجاب اور انعام کا معنی اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے (1) ۔ پس بل انکار کے رد پر دلالت کرتا ہے اور یا ما بعد کے ایجاب پر دلالت کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں : اگر کوئی کہے : الم تاخذ دینار ًا ؟ (کیا تو نے دینار نہیں لیا ؟ ) تو کہے گا : نعم تو معنی لا ہوگا یعنی میں نے نہیں لیا کیونکہ تو نے نفی کو ثابت کیا اور جب تو کہے : بلی تو معنی ہوگا میں نے دینار لیا۔ فراء نے کہا : جب کوئی شخص اپنے ساتھی سے کہے : مالک علی شیء (تیرے لئے مجھ پر کچھ نہیں ہے) دوسرا کہے : نعم تو یہ تصدیق ہوگی اس کے لئے اس پر کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ کہے : بلیٰ تو یہ اس کے قول کا رد ہوگا۔ تقدیر یوں ہوگی : بلی لی علیک (کیوں نہیں میرے لئے تجھ پر ہے) قرآن میں ہے : الست بربکم قالوا بلیٰ ۔ اگر وہ نعم کہتے تو کافر ہوتے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سیئۃً اس سے مراد شرک ہے۔ ابن جریج نے کہا : میں نے عطا سے کہا من کسب سیئۃ سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : شرک (1) اور پھر یہ آیت بطور دلیل پڑھی ومن جاء بالسیئۃ فکبت وجوھھم فی النار (النمل : 90) (جو برائی لے کر آئے گا تو ان کو منہ کے بل اوندھا پھینک دیا جائے گا آگ میں) اسی طرح حسن اور قتادہ نے کہا : خطیئۃ کبیرہ ہے۔ (2) مسئلہ نمبر 3: جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلیٰ من کسب سیئۃً واحاطت بہ خطیئتہ تو یہ دلیل ہے کہ دو شرطوں پر یہ حکم معلق ہے، دونوں شرطوں سے کم کے ساتھ حکم مکمل نہیں ہوگا۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا (فصلت :30) (بےشک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر (اس پر) استقامت اختیار کی) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے سفیان بن عبد اللہ ثقفی کو کہا، جب انہوں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتائیں کہ اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قل امنت باللہ ثم استقم (تو کہہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ) اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس مفہوم میں کلام گزر چکی ہے اور جو کچھ علماء نے ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظلمین۔ (البقرہ :35) کے ضمن میں فرمایا وہ بھی گزر چکا ہے۔ نافع نے خطیئاتہ، یعنی جمع پڑھا ہے باقی قراء نے مفرد پڑھا ہے اور معنی کثرت ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا (ابراہیم : 34) یہاں نعمۃ مفرد ہے لیکن معنی کثرت ہے۔
Top