Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
کیوں نہیں ! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
سَيِّئَةً : تنوین تنکیر کے لیے نہیں، بلکہ تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”بڑی برائی“ کیا گیا ہے، مراد اس سے کفر و شرک ہے۔ اس سے ملتا جلتا وہ واقعہ ہے کہ جب یہ آیت اتری : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) [ الأنعام : 82 ] تو صحابہ کرام ؓ نے : (بِظُلْمٍ) کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر کہا : ”ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان میں کسی ظلم کی آمیزش نہیں کی ؟“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے، کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی : (ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) [ لقمان : 13 ] ”بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“ [ بخاری، التفسیر، باب (لا تشرک باللہ۔۔) : 4776 ] تفصیل سورة انعام (82) میں دیکھیں۔ اسی طرح یہاں بھی (سَيِّئَةً) سے مراد کفر و شرک ہے۔ ابن عباس ؓ نے بھی اس سے مراد ایسا کفر لیا ہے جو ہر نیکی کو ختم کر دے۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن : 1؍214، ح : 812 ] ان آیات میں یہود کے اس نظریہ کی تردید ہے کہ ہم ہر حال میں آخر کار جنت میں جائیں گے، خواہ نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائیں۔ چناچہ بتایا گیا کہ جس نے بڑی برائی کا ارتکاب کیا، یعنی رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور اسے اس کے گناہوں نے گھیر لیا کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہی تو یہ ابدی جہنمی ہے۔ مراد اس سے یہود اور دوسرے کفار ہیں، کیوں کہ کفر ہی ایسا گناہ ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔ آیت : (وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا) [ الفرقان : 23 ] ”اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہوگا تو اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے۔“ اس آیت سے گناہ گار مومن مراد نہیں۔ اہل السنہ و الجماعہ کا اتفاق ہے کہ آگ میں ہمیشہ کفار و مشرکین ہی رہیں گے، کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ گناہ گار کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما دے گا اور چاہے گا تو شفاعت سے یا اپنی خاص رحمت سے جہنم سے نکال دے گا۔ اس لیے اس آیت میں ”سَيِّئَةً“ اور ”خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ“ سے مراد کفر و شرک ہی ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا، آیت : (بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً) ”(یہود کو خطاب ہے) کہ جس نے تمہارے اعمال جیسے عمل کیے اور تمہاری طرح کفر کیا، حتیٰ کہ اس کے کفر نے اس کی تمام نیکیوں کو گھیر لیا۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن : 1؍213، ح : 821 ]
Top