Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
کیوں نہیں جس نے کمایا گناہ156 اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے سو وہی ہیں دوزخ کے رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے157
156 بلیٰ حرف استدراک ہے ماقبل کی نفی اور مابعد کا اثبات کرتا ہے۔ وبلی وبل حرفا استدراک ومعناہھی نفی الخبر الماضی و اثبات الخبر المستقبل (معالم ص 66 ج 1) یہ بھی یہودیوں کے غلط دعو وں اور ان کی جھوٹی آرزوؤں کی تردید ہے۔ یعنی جیسا تم نے سمجھ رکھا ہے اور دل میں کئی امیدیں اور آرزوئیں پال رکھی ہیں ایسا نہیں بلکہ ہر بد کردار کو خواہ وہ کوئی ہو اس کے بد اعمال کی ضرور سزا ملے گی۔ یقول اللہ تعالیٰ لیس الامر کما تمنیتم ولا کما تشتھون بل الامر من عمل سیئۃ واحاطت بہ خطیئتہ۔۔۔ فہذا من اھل النار (ابن کثیر ص 119 ج 1) اور سیئہ سے یہاں کفر وشرک مراد ہے۔ وذھب کثیر من السلف الی انھا ھھنا الکفر (روح ص 306 ج 1) سیئۃ شرکا عن ابن عباس و مجاھد وغیرھما ؓ (مدارک ص 46 ج 1) اور ممکن ہے کہ سیئہ سے مراد مطلق معصیت ہو جو سب کو شامل ہو۔ واحاطت بہ خطیئتہ اور گناہوں نے اسے گھیر لیا ہو یہانتک کہ اس پر نیکی کی تمام راہیں بند کردی ہوں اور اس پر گناہوں کا اس قدر غلبہ ہو کہ اس کے پلے کوئی نیکی نہ ہو یہ ان تک کہ ایمان بھی مفقود ہو۔ لہذا اس صورت میں یہ آیت مومنین کو شامل نہ ہوگی۔ بلکہ صرف مشرکین اور کفار ہی سے متعلق ہوگی لہذا معتزلہ اور خوارج کا اس آیت سے استدلال کہ مومن عاصی مخلد فی النار ہوگا باطل ہوگیا۔ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ اور خلود سے یہاں دوام مراد ہے۔157 کفار ومشرکین کی وعید کے بعد یہاں مومنین صالحین کے لیے خلود فی الجنۃ کی خوشخبری بیان کی ہے اور یہاں بھی خلود سے مراد دوام ہے۔ امام سید محمود آلوسی (رح) تعالیٰ نے یہاں دو لطیف نکتے بیان فرمائے ہیں۔ اول یہ کہ عمل کا عطف ایمان پر اس بات کی دلیل ہے کہ عمل ایمان کی حقیقت سے خارج ہے اور اس کا جزو نہیں کیونکہ جزو کا عطف کل پر نہیں ہوسکتا۔ دوم یہ کہ اصحاب نار کی وعید بیان کرتے وقت حرف فا استعمال کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا مابعد ما قبل پر مرتب اور اس کا نتیجہ ہے لیکن اصحب جنت کو خلود فی الجنۃ کی خوشخبری سناتے ہوئے صرف فا استعمال نہیں فرمایا تو اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل نار کا خلود فی النار ان کے اعمال سیئہ کا نتیجہ ہے اور اہل جنت کا خلود فی الجنہ محض اللہ کی مہربانی اور اس کے لطف وکرم سے ہے (روح ص 307 ج 1) یہاں تک نوع ثانی ختم ہوئی۔ نوع ثالث اس میں نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی خباثتیں اور شرارتیں بیان کی گئی ہیں یعنی ضد وعناد اور عدوان وعصیان کوئی تمہارے اسلاف ہی میں منحصر تھا تم بھی انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہو۔ یعنی جو احکام تورات میں تم تمام بنی اسرائیل کو دئیے گئے تھے اور جو عہود تم سے لیے گئے تھے تمہارے اسلاف نے ان احکام کو ٹھکرایا اور ان عہود کو توڑا اب تم بھی اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے سرتابی کر رہے ہو اور اس کے عہود مواثیق کو پاش پاش کر رہے ہو۔
Top