Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 82
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوْا : اور انہوں نے کئے الصَّالِحَاتِ : اچھے عمل اُولٰئِکَ : یہی لوگ اَصْحَابُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو یہی لوگ اہل جنت ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے،278 ۔
278 ۔ دونوں آیتوں میں نجات کا پورا قانون ایجازواختصار کے ساتھ آگیا کہ نجات کونسل وقوم سے کوئی تعلق نہیں، جو کوئی اپنے قصد واختیار سے بدعقیدگی وبدکرداری کی راہ پر چلے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور جو کوئی اپنے قصد واختیار سے ایمان وعمل صالح کی روش کا انتخاب کرے گا ، ، اس کی منزل جنت ہے۔ (آیت) ” اولئک۔ فاولئک “ اوپر کی آیت کے الفاظ تھے (آیت) ” فاولئک اصحب النار “ اور اس آیت میں ہیں (آیت) ” اولئک اصحب الجنۃ “ گویا ایک ہی قسم کا حکم لگانے میں ایک جگہ (آیت) ” اولئک۔کے ساتھ ہے اور ایک جگہ بغیرکے، یہ فرق گوخفیف سا ہے اور لفظی بھی نہیں محض حرفی ہے، لیکن اتنا فرق بھی آخرکیوں ؟ اہل تحقیق نے جواب میں کہا ہے کہ پہلا موقع وعید کا تھا اہل جہنم کے لیے اور وعید میں امکان خلف وعید کا ہے، اس لیے اس پر زور دیا گیا ہے۔ اور دوسرے موقع پر صرف وعدہ تھا اہل جنت سے، جس کے خلف کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اس لیے محض ” اولئک “ بغیرکے بالکل کافی تھا۔ اور دوسرا جواب اس کے برعکس یہ بھی دیا گیا ہے کہ اہل نحو کہتے ہیں کہ اس فقرہ من دخل داری فاکرمہ میں اس کا امکان رہ جاتا ہے کہ گھر میں داخل ہونے والے کا اکرام نہ بھی کیا جائے، لیکن دوسرے فقرہ من دخل داری اکرمہ میں اکرام کرنا یقینی ہوجاتا ہے۔ عدم اکرام کا احتمال نہیں باقی رہتا۔ اسی نمونہ پر قرآنی فقرے میں نیک کاروں کو جنت ملنا بالکل یقینی ہے (روح) (آیت) ” الذین امنوا وعملوا الصلحت “ کی جو ترتیب یہاں ہے، یہ قرآن نے ہر جگہ اور بڑی کثرت سے ملحوظ رکھی ہے۔ اور اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ گوعمل صالح اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ضروری ہے لیکن ایمان اس سے بھی اہم تر ہے، اور بغیر ایمان کے مجرد عمل صالح کے کوئی معنی ہیں نہیں۔ ایمان کی حقیقت نیت عمل اور فکر کی تصحیح ہے۔ اور قرآن مجید نے بالکل فطری ترتیب کے مطابق تصحیح فکر کو تصحیح عمل پر مقدم رکھا ہے۔ محض عمل، اگر نیت سے قطع نظر کرلی جائے تو صرف صورت عمل رہ جاتا ہے۔ حقیقت عمل نہیں۔
Top