Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 74
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَهِيَ : سو وہ کَالْحِجَارَةِ : پتھر جیسے اَوْ : یا اَشَدُّ قَسْوَةً : اس سے زیادہ سخت وَاِنَّ : اور بیشک مِنَ الْحِجَارَةِ : پتھروں سے لَمَا : البتہ يَتَفَجَّرُ : پھوٹ نکلتی ہیں مِنْهُ : اس سے الْاَنْهَارُ : نہریں وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے (بعض) لَمَا : البتہ جو يَشَّقَّقُ : پھٹ جاتے ہیں فَيَخْرُجُ : تو نکلتا ہے مِنْهُ : اس سے الْمَآءُ : پانی وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے لَمَا : البتہ يَهْبِطُ : گرتا ہے مِنْ : سے خَشْيَةِ اللہِ : اللہ کے ڈر وَمَا : اور نہیں اللّٰہُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اس پر بھی تمہارے دل اس کے بعد بھی سخت ہی رہے، 254 ۔ چناچہ وہ مثل پتھر کے ہیں، بلکہ سختی میں ان سے بھی بڑھ کر،255 ۔ اور پتھر تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس سے دریا پھوٹ نکلتے ہیں،256 ۔ اور کوئی ان میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے پانی نکلتا ہے،257 ۔ اور کوئی ان میں سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی ہیبت سے نیچے آگرتا ہے258 ۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو، اللہ اس سے بیخبر نہیں،259 ۔
254 ۔ یعنی قبول کی طرف ذرانہ مائل ہوئے۔ ثم۔ یہاں استبعاد کے لیے ہے، یعنی جو نتیجہ نہ نکلنا چاہیے تھا وہ نکلا۔ ثم لاستبعاد القسوۃ بعد مشاھدۃ مایزیلھا (ابوسعود) (آیت) ” من بعد ذلک “ اس تصریح نے اس استبعاد کو اور زیادہ قوی وشدید کردیا۔ مؤکد للاستبعاد اشد تاکیدا (جمل) 255 (عدم قبول حق کے باب میں) اسرائیلی صحیفوں میں بھی یہ مضمون بار بار آیا ہے۔ مثلا ” وہ تربیت پزیر نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے چہرہ کو چٹان سے سخت تربنایا، انہوں نے پھر نے سے انکار کیا ہے “ بمعنی بل (جمل) یہ بھی کہا گیا ہے کہ او یہاں بطور کلمہ اباحت آیا ہے۔ یعنی خواہ انہیں پتھر سمجھو یا پتھر سے بھی بڑھ کر سخت دونوں باتیں صحیح ہیں، سب سے بہتر یہ ہے کہ او کو کلمہ تنویع قرار دیا جائے اور آیت کے معنی یہ کیے جائیں کہ ان کے قلوب دو قسم کے ہیں۔ کچھ تو پتھر جیسے سخت، اور کچھ اس سے بھی زیادہ سخت۔ فالمعنی ھم فرقتان فیھم من قلبہ کالحجر، فیھم من قلبہ اشد من الحجر، (قرطبی) کان قلوبھم علی قسمین قلوب کالحجارۃ قسوۃ وقلوب اشد قسوۃ من الحجارۃ (بحر) اوللتنویع اے بعض کالحجارۃ وبعض اشد (روح) 256 ۔ (اور ان سے ایک عالم سیراب ہوتا ہے) اس قسم کے پتھروں کی مثال انسانی آبادی میں حضرات انبیاء ورسل ہیں۔ ان کے چشمہ فیض سے ایک عالم اپنی روحانی پیاس بجھاتا اور سیراب ہوتا رہتا ہے۔ ترجمہ :257 ۔ (اور ان سے بھی کسی درجہ میں اللہ کی مخلوق سیراب ہوتی رہتی ہے) اس نوعیت کے پتھروں کی مثالیں اولیاء امت اور ابرار ومتقین ہیں کہ ان سے بھی انسانوں کا ایک بڑا طبقہ فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ 258 ۔ (اور اس طرح خود اپنے تاثر کا ثبوت بہم پہنچاتا رہتا ہے) اس طرح کے پتھروں کی مثال عام مومنین صالحین ہیں کہ دوسروں کی اصلاح وہدایت اگر نہ کرسکیں جب بھی اپنا ایمان تو سلامت لے ہی جاتے ہیں اور اپنے قبول حق کا ثبوت تو دے ہی جاتے ہیں، (آیت) ” من خشیۃ اللہ “ اوپر سے ذکر پتھروں ہی کا چلا آرہا ہے پتھروں کا جمود تو مسلم اور ان کی قساوت تو مشاہد ہے، پھر ان میں خشیت اللہ کا گزر کیسے اور ہیبت الہی کا اثر کیونکر ؟ اہل سنت کا ایک گروہ کہتا ہے کہ خشیت الہی کا یہ اثر پتھروں میں اپنے حقیقی اور لفظی معنوں میں ہے۔ یعنی بعض پتھروں میں گداز کا جزو ہوتا ہے۔ گوان کے مرتبہ جمادی کے مطابق۔ اور ان میں فہم وادراک کی قوتیں ہوتی ہیں گوان کی سطح حجری کے متناسب، جیسے طور پر آخر پہاڑ ہی تھا لیکن تجلی الہی کے وقت جلالت ربانی سے چور چور ہوگیا۔ ذلک بان اللہ جل ذکرہ اعطی بعض الحجارۃ المعرفۃ والفھم (ابن جریر) قیل المرادبہ حقیقۃ الخشیۃ (مدارک) مذھب قوم وھو المروی عن مجاہد وغیرہ انھا ھنا حقیقۃ (روح) مذھب اھل السنۃ والجماعتہ ان للہ تعالیٰ علما فی الجمادات وسائر الحیوانات سوی العقلاء لا یقف علیہ غیر اللہ فلھا صلوۃ وتسبیح و خشیۃ (معالم) لیکن ایک دوسرا گروہ کہ وہ بھی اہل سنت ہی کا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ خشیت سے یہاں مراد محض خشیت مجازی یا انقیاد تکوینی ہے۔ عقل، فہم، شعور و ارادہ سے اس کا تعلق نہیں، لیکن بہرحال طبعی واضطراری طور پر تو موجودات کا ایک ایک ذرہ قوانین الہی کے تابع ہی ہے۔ اسی کو یہاں مجازا خشیت الہی سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ جیسے خود محاورۂ قرآنی ہی میں ایک دوسری جگہ ارادہ کو بےجان وبے روح دیوار کی طرف منسوب کردیا گیا ہے (آیت) ” جداریرید ان ینقض (کہف) حالانکہ سب جانتے ہیں کہ دیوار میں کوئی قوت نہ ارادہ کی ہوتی ہے نہ خواہش کی، انما ارید بذلک انہ من عظم امر اللہ یری کانہ ھابط خاشع من ذل خشیۃ اللہ (ابن جریر) قیل ھو مجاز عن انقیادھا لامر اللہ (مدارک) والخشیۃ مجاز عن الانقیاد (بیضاوی) قال قوم ان الخشیۃ مجاز عن انقیاد لامر اللہ (روح) دونوں گروہ اہل حق ہی کے ہیں اور دونوں تفسریں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ 259 ۔ خدائے تعالیٰ نہ بےعلم وبے خبر ہے، نہ بےطاقت وبے اختیار اور اس کے علم و طاقت دونوں کا حال عنقریب منکشف اور مشاہد ہو کر رہے گا۔
Top