Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 11
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَهِيَ : سو وہ کَالْحِجَارَةِ : پتھر جیسے اَوْ : یا اَشَدُّ قَسْوَةً : اس سے زیادہ سخت وَاِنَّ : اور بیشک مِنَ الْحِجَارَةِ : پتھروں سے لَمَا : البتہ يَتَفَجَّرُ : پھوٹ نکلتی ہیں مِنْهُ : اس سے الْاَنْهَارُ : نہریں وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے (بعض) لَمَا : البتہ جو يَشَّقَّقُ : پھٹ جاتے ہیں فَيَخْرُجُ : تو نکلتا ہے مِنْهُ : اس سے الْمَآءُ : پانی وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے لَمَا : البتہ يَهْبِطُ : گرتا ہے مِنْ : سے خَشْيَةِ اللہِ : اللہ کے ڈر وَمَا : اور نہیں اللّٰہُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے۔ پس وہ پتھروں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں اور بیشک بعض پتھروں میں سے البتہ وہ ہیں کہ جن سے نہریں جاری ہوجاتی ہیں اور بیشک ان پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ، ان سے پانی نکلتا ہے اور بیشک ان پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کاموں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو
قساوت قلبی : بنی اسرائیل کی بہت سی برائیوں کا ذکر گزشتہ آیات میں آچکا ہے۔ اور بعض کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ آیت زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام تر برائیوں کا نتیجہ بیان فرمایا ہے۔ بنی اسرائیل کی طرف سے کتمان حق ، بچھڑے کی پرستش ، قانون کی خلاف ورزی ، قتل انبیاء (علیہم السلام) وغیرہ یہ تمام ایسی بیماریاں تھیں جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کے دل سخت ہوگئے۔ سورة مائدہ میں بنی اسرائیل کی قساوت قلبی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے “ فبما نقضھم میثاقھم لعنھم وجعلنا قلوبھم قسیۃ ” یعنی بنی اسرائیل کے عہد و پیمان توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس قسم کے کام کرتے تھے کہ “ یحرفون الکلم عن موضعۃ ” اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے مقام سے تبدیل کردیتے ۔ گویا آسمانی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے قساوت قلبی جیسی لعنت میں گرفتار ہوگئے بلکہ ان کے فہم بھی الٹ گئے۔ ان میں ضعف ہمت کی بیماری بھی پیدا ہوگئی۔ جس کی وجہ سے وہ جہاد کے لئے بھی آمادہ نہ ہوئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ اور آپ کا خدا جاکر جہاد کریں۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے “ لاتکثر الکلام بغیر ذکر اللہ ” یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کرو۔ کیونکہ فضول باتیں کرنے کی وجہ سے انسان میں قسادت قلبی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بعید ترین وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ خدا تعالیٰ سے دوری مسافت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے درمیان پردے پڑجائیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوجائے۔ اسی لیے فرمایا کہ ذکر الٰہی کے علاوہ کثرت کلام سے اجتناب کرو۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے (2 ۔ مسند احمد ج 2 ص 287 ، ترمذی) کہ ایک شخص نے عرض کیا ، حضور ! میں اپنے دل میں سختی محسوس کرتا ہوں۔ اسکا علاج بتائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو۔ غریبوں اور مسکینوں کی پرورش کرو ، انسانوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری قسادت قلبی دور فرمائیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 114 بحوالہ بزار مرفوعا) ہے کہ قسادت قلبی چار چیزوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور جمود العین یعنی اس کی آنکھیں منجمد ہو کر وہ جائیں۔ ان سے خشیت الٰہی کی وجہ سے کبھی آنسو نہ نکلیں۔ ثانیاً قسادۃ القلب یعنی اس کا دل سخت ہوجائے جو نرم نہ ہو۔ ثالثاً طول الامل لمبی مید۔ رابعاً ۔ حرص علی الدنیا یعنی اس کے دل میں دنیا کی محبت حد سے زیادہ ہو۔ پتھروں سے زیادہ سخت دل : بنی اسرائیل اس قسادت قلبی کا شکار ہوچکے تھے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا “ ثم قست قلوبکم من بعد ذلک ” پھر اسکے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے۔ حالانکہ تم خدا تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں یعنی اس کی طرف سے معجزات دیکھ چکے تھے اس کے باوجود تمہارے دلوں میں نرمی پیدا نہ ہوسکی۔ بلکہ وہ تو ایسے ہوگئے جیسے پتھر ہوتے ہیں۔ “ فھی کا لحجارۃ او اشد قسوۃ ” بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے لفظ “ او ” دو معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر اسکا معنی بل (بلکہ) کیا جائے تو مطلب ہوگا۔ تمہارے دل پتھروں کی طرح سخت ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ اور یہ تنویع کے لیے بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی تمہارے دل پتھروں کی طرح سخت ہوگئے۔ ب دیکھئے۔ لوہا پتھروں سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے “ کونوا حجارۃ او حدیدا ” یعنی پتھر یا لوہا ہوجاؤ۔ کیا تمہارے خیال میں اس سے زیادہ سخت چیز بھی کوئی ہے وہاں پر بھی قسادت قلبی کو پتھروں اور لوہے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ بنی اسرائیل کے دل پتھروں کی طرح سخت ہوچکے تھے۔ یا پتھروں سے بھی زیادہ قسادت ان میں پیدا ہوچکی تھی۔ پتھروں کے فوائد : بنی اسرائیل کی قسادت کو مزید اس مثال سے بیان فرمایا کہ دیکھو “ وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانھر ” یعنی بعض پتھر ایسے ہیں کہ ان میں سے نہریں پھوٹتی ہیں۔ جن سے مخلوق خدا سیراب ہوتی ہے “ وان منھا لما یشقق ” اور بعض پتھر ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں “ فیخرج منہ المآء ” اور ان سے پانی بہ نکلتا ہے جو کہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ “ وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ۔ اور بعض ایسے پتھر بھی ہیں جو خوف خدا سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ مگر یہ بنی اسرائیل ایسی بدبخت قوم ہے کہ ان میں پتھروں والی خصوصیات بھی نہیں پائی جاتیں۔ پتھر بلاشبہ سخت ہیں۔ مگر پھر بھی ان سے مخلوق خدا فائدہ حاصل کرتی ہے۔ مگر یہ قوم پتھروں سے بھی گئ گزری ہے۔ جن سے کچھ حاصل نہیں۔ سجدہ تقرب الی اللہ کی علامت ہے : مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 34 ، تفسیر مدارک ج 1 ص 57 ، تفسیر عزیزی فارس پارہ نمبر ص 294) کہ پتھروں کا بلندی سے پستی کی جانب گرپڑنا خشیت الٰہی کی بناء پر ہوتا ہے۔ اور در حقیقت یہ پتھر کا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور نیاز مندی کی انتہائی شکل سجدہ ہے۔ اور یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا اتصال پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ “ واسجدواقترب ” یعنی سجدہ کرو اور قرب خداوندی حاصل کرو حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ مسلم ج 1 ص 191 ، ابو داؤد ج 1 ص 127 ، نسائی ج 1 ص 170) “ اقرب ما یکون العبد من ربہ فھو ساجد ” یعنی جن حالتوں میں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوتا ہے۔ ان میں حالت سجدہ سب سے اولیٰ ہے۔ اس حالت میں جس قدر عجزو انکساری ہوگی اسی قدر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتصال سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی اتصال کی بدولت انسان کی حالت درست رہ سکتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ جو شخص پتھروں جیسے اوصاف کا حامل بھی نہیں ہے۔ یعنی نہ تو اس سے مخلوق کو عام فائدہ پہنچتا ہے ۔ نہ وہ شخص محدود پیمانہ پر مفید ہے۔ اور نہ ہی اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتصال ہے۔ تو پھر ایسا انسان بلاشبہ بدبخت اور شقی ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ انہیں قدرت خداوندی کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ بلکہ جو ان کے ساتھ چلنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس نعمت سے محروم نہیں رہتے۔ اور پھر ان کی وجہ سے بڑی بڑی باتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض اکابر دین : ہمارے بعض ایسے اکابر قریبی زمانہ مٰں ہوئے ہیں جو یقیناً مقربین الٰہی میں سے ہیں۔ سید احمد شہید بریلوی (رح) سادات کے خاندان میں سے حسنی تھے۔ وطن مالوف رائے بریلی تھا۔ دہلی میں حضرت شاہ عبد العزیزی محدث دہلوی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوئے بیعت کی اور علم حاصل کیا۔ شاہ صاحب (رح) نے مزید تربیت کے لیے اپنے برادرِ خورد شاہ عبد القادر (رح) کے سپرد کردیا۔ انہوں نے تین سال تک سید احمد شہید بریلوی (رح) کی تربیت کی۔ یہ وہی شاہ عبد القادر (رح) ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن پاک کا اردو ترجمہ کیا۔ صاحب کشف بزرگ تھے ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے۔ شاہ عبد العزیز (رح) کی عمیق نظروں نے جانچ لیا کہ سید احمد شہید بریلوی عظیم صالحیت کے مالک ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں سے بہت اہم کام لے لیتا ہے۔ چناچہ تین سالہ تربیت مکمل کرلینے کے بعد شاہ صاحب نے سید احمد شہید (رح) کو ٹونک جاکر فوجی تربیت حاصل کرنے کا حکم دیا۔ لہٰذا آپ نے چھ سال تک فوجی تربیت بھی حاصل کی۔ گویا سید احمد شہید (رح) ، شاہ عبد العزیزی (رح) کے تربیت یافتہ اور ان کے مجاز تھے ۔ خود شاہ عبد العزیزی (رح) برصغیر میں اپنے باپ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے بعد بہت بڑے عالم اور فقیہہ تھے۔ آپ محدث اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کے داماد مولانا عبد الحی رحمی اللہ علیہ بھی بڑے پائے کے بزرگ تھے۔ آپ سید صاحب (رح) سے زیادہ عالم تھے۔ شاہ اسماعیل شہید (رح) ، شاہ عبد الغنی (رح) کے بیٹے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے پوتے تھے قرآن پاک کے علاوہ تیس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ صبح کی نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کرتے اور سورج نکلنے تک ختم کرلیتے ادھر عصر کے بعد شروع کرتے تو مغرب کی اذان کے ساتھ ختم کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قدر انعام فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کے ہاتھ میں شیخ عبد الحق محدث کا وہ رسالہ آگیا۔ جس میں نماز کی ترکیب لکھی ہوئی تھی۔ چناچہ اس طریقہ کے مطابق ہی نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تھے آپ کی خواہش تھی کہ رات کے وقت دو رکعت ایسی نماز پڑھنے کی توفیق میسر آجائے جس کے دوران کوئی وسوسہ نہ آئے۔ ایسی کوشش میں رات بھی میں سو رکعات نماز ادا کی۔ مگر مقصد حاصل نہ ہوا۔ اس بات کا ذکر آپ نے سید احمد شہید بریلوی (رح) سے کیا۔ کہ شیخ عبد الحق محدث (رح) کے رسالہ میں مذکور طریقے سے نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔ سید صاحب (رح) نے فرمایا کہ محض کتاب میں طریقہ پڑھ کر مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ آؤ میرے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرلو۔ چناچہ جب سید صاحب (رح) کے اقتداء میں نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور قلب عطا کیا۔ اور مطلوبہ کیفیت حاصل ہوگئی۔ اس واقعہ کا ذکر آپ نے حضرت مولانا عبد الحی (رح) کے پاس بھی کیا۔ کہ حضور قلب کے لیے انہوں نے کتنی کوشش کی مگر یہ چیز سید احمد شہید (رح) کے ساتھ نماز پڑھنے سے حاصل ہوئی۔ یہ سن کر مولانا عبد الحی (رح) کو بھی اشتیاق پیدا ہوا سید صاحب (رح) سے عرض کیا تو انہوں نے انہیں بھی اپنے پیچھے نماز پڑھائی۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی وہی کیفیت عطا کردی یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں صاحب یعنی شاہ اسماعیل شہید (رح) اور مولانای عبد الحی (رح) ہمیشہ سید احمد بریلوی (رح) کے ہمراہ رہے۔ شاہ اسمعیل کو تو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مرتبہ عطا کیا۔ مگر مولانا عبد الحی (رح) اسی سفر کے اور ان سرحد کے علاقہ پنج تار میں جا کر بیمار ہوئے اور وہیں پر داعی کو لبیک کہا۔ بالا کوٹ کی تاریخی جنگ میں شاہ اسمعیل شہید (رح) فوج کے سالار تھے اور مولانا عبد الحی (رح) ، سید احمد شہید (رح) کے لشکر میں عہدہ قضا پر فائز تھے۔ اس اسلامی فوج کے امیر سید احمد شہید برہلوی (رح) تھے۔ سرحد میں ان کی قائم کردہ اسلامی حکومت تین سال تک چلی۔ اس کے بعد مسلمانوں کی نالائقی کی وجہ سے آگے نہ چل سکی۔ اسی دوران مولانا عبد الحی (رح) بیمار ہوگئے جب ان کی زندگی کی امید باقی نہ رہی تو سید صاحب (رح) نے پوچھا کوئی خواہش ہو تو بتائیں کہنے لگے خواہش تو شہادت کی موت کی تھی۔ جو پوری نہیں ہوسکی۔ اب چاہتا ہوں کہ اس آخری وقت میں آپ کا قدم میرے سینے پر ہو۔ سید صاحب (رح) نے ان کی خواہش کو پورا کیا۔ اور آپ نے اس کے بعد اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ : مسلمانوں کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کی اپنی غداری ہے۔ یہ غداری ابن علقمی کے دور کے بعد ساتویں صدی میں شروع ہوئی۔ اسی وجہ سے سلطنتیں تباہ ہوئیں۔ اور مسلمان روبہ زوال ہی ہے پھر یہ اپنے قدموں پر جم نہ سکے۔ تو بہرحال میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا اتصال نصیب ہوتا ہے۔ حقیقی معنوں میں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اور جن لوگوں میں پتھروں والی تین صفات بھی نہیں پائی جاتیں وہ بدبخت اور شقی ہوتے ہیں۔ ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ۔ بنی اسرائیل کی مثال واضح ہے۔ یہ پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ان کا وجود غیر مفید بلکہ بنی انسان کے لیے مضر ہے گویا یہ سارا اسرائیلیوں کی خرابیوں کا ذکر ہے۔ فرمایا “ وما اللہ بغافل عما تعملون ” یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے کسی فعل سے غافل نہیں ہے۔ تمہاری تمام کرتوتیں اس کی نگاہ میں ہیں۔ ایک وقت آنے والا ہے۔ جب اللہ جل شانہ تمہارے اعمال کا انجام تمہارے سامنے رکھ دے گا۔ یہ سارا بنی اسرائیل کو خطاب ہے۔ کہ اب بھی سمجھ جاؤ اور راہ راست پر آجاؤ۔ تو اچھے انجام کو پہنچ جاؤ گے۔ ورنہ تم اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
Top