بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 1
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُۙ
اِذَا وَقَعَتِ : جب واقع ہوجائے گی الْوَاقِعَةُ : واقع ہونے والی (قیامت)
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے
اخبار وقوع قیامت وتقسیم انسان درگروہ ثلثہ : قال اللہ تعالیٰ (آیت ) ” اذا وقعت الواقعۃ ...... الی ...... ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “۔ (ربط) سورة الرحمن میں ابتدا حق تعالیٰ نے اپنی قدرت و عظمت کی نشانیاں بیان فرمائیں پھر عالم کے فنا اور قیامت کے برپا ہونے کا ذکر فرمایا اسکے بعد منکرین کی بدحالی اور انکی سزاؤں کا سلسلہ بیان شروع فرمایا پھر اس کے بالمقابل اہل ایمان وتقوی کی جزاؤں اور ان پر اللہ کی طرف سے عطا کردہ انعام واکرام کی تفصیل فرمائی گئی اب اس کے بعد اس سورة واقعہ میں احوال قیامت کی تفصیل بیان کی جارہی ہے کہ قیامت ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسکو کوئی جھٹلا نہیں سکتا اور اس کے آنے پر دنیا کے انسانوں کے سامنے انکی زندگی کا انجام معلوم ہوجائے گا اور کس طرح وہاں کوئی عزیز وسربلند ہوگا اور کوئی ذلیل وسرنگوں اور جو مقربین بارگاہ خداوندی ہوں گے ان پر کیسے کیسے انعامات ہوں گے ارشاد فرمایا۔ یاد کرو جب واقع ہونے والی چیز واقع ہوجائے گی یعنی قیامت تو اس کے وقوع کو کوئی جھٹلانے والا نہ ہوگا اس وقت ہر ایک منکر اور کافر کے سامنے بھی حقیقت کھل جائے گی کی جو بات اللہ کے پیغمبر نے کہی تھی وہ بالکل حق تھی اور جب وہ واقع ہوجائے گی تو اس کو کوئی ٹلانے والا نہ ہوگا کہ کسی تدبیر اور حیلہ سے ٹلا دے وہ کسی کو پست کرنے والی ہوگی اور کسی کو بلند کرنے والی ہوگی بڑے بڑے متکبر جو دنیا میں بڑے ہی سربلند تھے وہ اس وقت پست اور ذلیل ہورہے ہوں گے اور دنیا میں حقیر اور پست سمجھے جانے والے مومنین سربلند ہوں گے یہ قیامت ایسی صورت سے برپا ہوگی کہ اس وقت زمین لرزنے لگے گی بڑے ہی شدید جھٹکوں کے ساتھ اور بالکل ہی ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے پہاڑ پھر وہ ہوجائیں گے پراگندہ غبار اور روئی کے اڑتے ہوئے گالوں کی طرح اور اس وقت اے انسانو ! تم ہوجاؤگے تین قسم کے گروہ جنتی جہنمی اور مقربین، سوداہنے والے یعنی جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ نجات پانے والے ہیں کیا ہی خوب ہیں داہنے والے اور بائیں والے جن کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ ہلاک ہونے والے ہیں کیا ہی بدنصیب ہیں بائیں والے اور تیسرا۔ 1 حاشیہ (اصحاب الیمین کی تفسیر میں یہ بھی منقول ہے کہ عرش الہی کی دائیں طرف ان اہل ایمان کو جگہ عنایت کی جائے گئی یہ دائیں ہاتھ والے وہی ہوں گے جن کو عہد الست اور راخذ میثاق کے وقت آدم (علیہ السلام) کے دائیں جانب سے نکالا گیا تھا اور یہ وہی ہوں گے جن پر القاء نور کے وقت نور پہنچا تھا اور انہوں نے پھر اپنی دنیوی زندی میں یہ نور ہدایت حاصل کیا اور پھر یہی نور ان کا ساتھی قبر میں رہا اور صراط پر بھی رہا لقول اللہ عزوجل (آیت ) ” نورھم یسعی بین ایدیھم “۔ تو اسی نسبت سے فرشتے بھی انکو دائیں طرف لیں گے اور اصحاب یمین ہونے کا یمن اور برکت یہ ہوگی کہ انکے نامہائے اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے جس پر ان کو بڑی ہی فرحت ومسرت ہوگی اور فرط مسرت سے یہ لوگ پکار پکار کر کہتے ہوں گے (آیت ) ” ھآؤم اقرء ؤا کتابیہ “۔ اور یہی وہ ہیں جن کو شب معراج میں آنحضرت نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی دائیں جانب دیکھا تھا اور آدم (علیہ السلام) اپنی اولاد میں سے جب ان بیٹوں کو دیکھتے تو خوش ہوتے اور اہنستے اور ان کے بالمقابل اصحاب الشمال اور بائیں بازو والے وہ بدنصیب ہیں جو ہر جگہ محرومی اور بدنصیبی ہی کا شکار رہے تو جب آدم (علیہ السلام) کی نظر اپنی اس بدنصیب اولاد پر پڑتی تو غمزدہ ہو کر روتے تو یہی وہ بدنصیب ہیں جن کے نامہائے اعمال باتیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور اس وقت یہ اپنی بدنصیبی پر غم کریں گے اور حسرت ہوگی کہ کاش ہم ہدایت قبول کرکے اصحاب الیمین دائیں بازو والوں میں شامل ہوجائے 12۔ ) گروہ وہ آگے بڑھنے والوں کا ہے سو وہ تو سبقت ہی لیجانے والے ہیں وہی تو مقربین ہیں بارگاہ خداوندی میں جو آسائش و آرام کی باغوں میں ہوں گے اور مقربین کا ایک بڑا گروہ اولین میں سے ہوگا اور کچھ تھوڑے لوگ ہوں گے پچھلوں میں سے اور بعد میں آنے والوں میں سے یہ لوگ ایسی مسندوں اور تختوں پر ہوں گے جو سونے کے تاروں سے جڑے ہوں گے جن پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھنے والے ہوں گے اس طرح اطمینان و سکون اور سرور حاصل ہوگا اور ہر ایک دوسرے کی طرف رخ اور توجہ کرنے والا ہوگا اور سب برابر رتبہ کے نظر آتے ہوں گے یہ نہیں کہ کچھ صف اول کے ہوں اور کچھ صف ثانی کے انکے سامنے گشت کرتے ہوں گے ایسے خدمت گار لڑکے جو ہمیشہ اسی طرح معصومیت ولطافت کی شان کے ساتھ رہیں گے جو لیئے پھرتے ہوں گے آبخورے اور آفتابے اور جام ایسی شراب طہور کے جو صاف و شفاف چشمے سے بہتے ہوئے پانی کی طرح ہو جس کے پینے سے نہ انکو درد سر ہوگا اور نہ عقل میں کوئی فتور ہوگا برخلاف اسکے کہ دنیا کی شرابیں درد سر کا باعث ہوتی ہیں اور عقل وہوش میں فتور ڈال کر انسان کو پاگل کی طرح مدہوش کردیتی ہیں۔ اور نیز ایسے پھل اور میوے جن کو یہ لوگ پسند کریں اور چاہیں اور پرندوں کا وہ گوشت جس کی یہ لوگ خواہش کریں اور وہ حورعین (گوری رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی عورتیں) جو سیپ میں محفوظ رکھے ہوئے چمکدار موتیوں کی طرح ہوں ایسی نعمتیں، راحتیں اور لذتیں اہل جنت کو حق تعالیٰ کی طرف سے اس صبر و قناعت وتقوی کے بالمقابل عطا کی جائیں گی جو ایمان والوں نے صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے دنیا میں ان تمام لذتوں سے پرہیز کیا تھا تو یہ سب کچھ بدلہ ہے ان اعمال کا جو یہ لوگ دنیا میں کرتے تھے ان جملہ راحتوں، نعمتوں اور لذتوں کے علاوہ یہ بھی انکا اکرام اور اعزاز ہوگا کہ کوئی ناگوار طبع اور ناگوار خاطر چیز بھی ان کے لئے نہ ہوگی چناچہ نہ سنیں گے اس میں کوئی بےہودہ بات اور نہ کوئی فسق وفجور کی چیز اور فحش بات بس ہر طرف سے یہی ایک آواز ہوگی۔ سلاما، سلاما جو سنائی دے گی ظاہر ہے کہ دار السلام میں سلام سلام کی آوازوں کے علاوہ اور کیا سنا جاسکتا ہے وہاں نہ بک بک کی آوازیں سنیں گے اور نہ شوروشغب اور بےہودہ گفتگو ہوگی، کیونکہ شور وشغب یا فسق وفجور کی باتیں اور بےہودہ کلام باطن کی گندگی کے آثار وثمرات ہیں اور جنت دارالطیبین ہے (آیت ) ” لا یدخلھا الا الطیبون “۔ اس وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس عالم میں اہل جنت کے سامنے کوئی بھی بات خبث وگندگی کی ظاہر ہو۔ اور داہنی طرف والے ؟ سبحان اللہ کیا ہی خوب ہیں داہنی طرف والے انکی سعادت اور ان پر انعامات کا یہ عالم ہوگا کہ وہ لوگ ایسے باغوں میں ہوں گے جن میں بیریاں ہوں گی بغیرکانٹوں کے اور ایسے درخت کے بیر نہایت ہی عمدہ اور لذیذ ہوں گے جنت کا کوئی پھل اور درخت محض تفہیم اور تعارف کے طور دنیا کے درختوں اور پھلوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ نہیں کہ ان درختوں اور پھلوں کو دنیا کے درخت اور پھل کے مشابہ اور ہمرتبہ سمجھا جائے وہاں کی تو ہر نعمت پرداز فکر اور حد قیاس سے بالادبرتر ہے اور ان باغوں میں تہہ بہ تہہ کیلے ہوں گے اور ایسا سایہ جو پھیلا ہوا ہوگا اور وہ پانی جو جاری اور بہتا ہوگا اور وہ پھل جو بڑی ہی کثرت سے ہوں گے نہ کبھی منقطع ہونے والے ہوں گے، فصل ختم ہوجانے کی وجہ سے اور نہ انکو روکا گیا ہوگا، کہ کسی طرح کی پابندی عائد ہو بلکہ ہر پھل بلاروک ٹوک نہایت کثرت کے ساتھ ہر وقت ان اہل یمین کے پاس پہنچتا ہوگا اور بچھونے ہوں گے نہایت ہی بلند جو حسی بلندی کے ساتھ معنوی عظمت وبلندی بھی رکھتے ہوں گے وہاں کی عورتیں ایسی ہیں کہ ہم نے ان کو بنایا ہے ایک خاص طور سے بنانا پھر ہم نے ان کو بنایا باکرہ خاوندوں کی محبوبہ برابر عمروں والی داہنے ہاتھ والوں کے لیے تاکہ یہ اہل جنت دیگر نعمتوں اور راحتوں کے ساتھ رفیق حیات کی مرافقت اور اس مرافقت سے کامل راحت و سکون حاصل کرلیں اور انسانی طبائع کے لئے جس قسم کی بھی راحت ولذت کا طبعا تصور ہوسکتا ہے ان سب کی جنت میں تکمیل کردی جائے ان اصحاب یمین کا ایک بہت بڑا گروہ پہلے لوگوں میں سے ہوگا اور ایک بہت بڑا گروہ پچھلے لوگوں میں سے ہوگا اس طرح اصحاب الیمین اولین اور آخرین دونوں طبقوں میں بڑی تعداد میں ہوں گے۔ اہل ایمان وتقوی کا ہر دور میں بکثرت ہونا امت محمد یہ ﷺ پر خصوصی انعام : اللہ رب العزت کا امت محمد یہ ﷺ پر خصوصی انعام ہے کہ انمیں اہل ایمان وتقوی ہر دور اور قرن میں بکثرت ہوں گے کوئی دور اور قرن مومنین اور مخلصین سے خالی نہیں رہ سکتا یہاں تک کہ ایس طرح قیامت قائم ہوجائے گی یہی وجہ ہے کہ اس امت کے ناجی تعداد میں اکثر ہوں گے بخلاف دوسری امتوں کے کہ ان میں تباہ وبرباد ہونے والوں کا عددزیادہ ہوگا یہی وہ چیز تھی جس کا ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، شب معراج میں جب کہ آنحضرت ﷺ کا گذر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر سے ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے پوچھا گیا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیوں رو رہے ہو عرض کیا اے پروردگار یہ نو عمر بنی ہیں جو میرے بعد مبعوث ہوئے لیکن انکی امت میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہوگی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی امت پر حسرت کرتے ہوئے گریہ فرمانے لگے امت کا تعلق فطری ہے اور ظاہر ہے کسی پیغمبر کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا صدمہ ہوسکتا ہے کہ اس کی امت کی زائد تعداد جہنم کا ایندھن بنے اور نجات پانے والے کم ہوں تو یہ اعزاز اللہ رب العزت نے آنحضرت ﷺ کو عطا فرمایا اور آپ ﷺ کی امت کو یہ شرف بخشا کہ (آیت ) ” ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “۔ امام بخاری (رح) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! کیا تم اس پر راضی ہو کہ جنت میں تم چوتھائی ہوجاؤ لوگوں نے عرض کیا ضرور ہم اس پر راضی ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا تو کیا اس پر راضی ہو کہ تم تہائی اہل جنت ہو اس پر بھی عرض کیا بیشک یا رسول اللہ آپ ﷺ نے گویا قصدا تعداد کی اس نسبت پر ہم سے رضا مندی کی وضاحت لے لی تو پھر فرمایا اور ایسی بشارت دی کہ وہ توقع بلکہ تصور سے بھی بڑھ کر تھی فرمایا۔ والذی نفسی بیدی انی لارجو ان تکونوا نصف اھل الجنۃ وما انتم الا کا لشعرۃ البیضاء فی جلدالثور الاسود اوکالشعرۃ السوداء فی جلد الثور الابیض : (رواہ مسلم ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری زندگی ہے میں تو امید کرتا ہوں کہ تم نصف جلتی ہوگے حالاں کہ تمہاری نسبت تمام امتوں کے مقابلہ میں بس ایسی ہی ہے جیسے چند سفید بال سیاہ بچھڑے کی کھال میں یا چند سیاہ بال سفید بچھڑے کی کھال میں۔ بلکہ جامع ترمذی کی ایک حدیث سے تو عددی تناسب اس سے بھی زائد معلوم ہوا حضرت بریدہ ؓ کی روایت ” اھل الجنۃ ماءۃ وعشرون صفا۔ ثمانون منھا من ھذہ الامۃ واربعون من سائر الامم “۔ کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہونگی جن میں سے اسی (80) صفیں اس امت کی ہونگی اور چالیس صفیں باقی تمام امتوں کی ہوں گی پہلے اس سورت میں (آیت ) ” ثلۃ من الاولین وقلیل من الاخرین “۔ فرمایا پھر دوبارہ (آیت ) ” ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “۔ فرمایا بعض مفسرین نے بعض روایات وآثار کے پیش نظریہ رائے قائم کی کہ اولین سے مراد پہلی قومیں ہیں اور آخرین سے مراد آنحضرت ﷺ کی امت ہے اور آپ ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والی مخلوق ہے ابن جریر ؓ نے اس تفسیر کو اختیار کیا حافظ ابن کثیر ؓ نے اس کے لیے بطور قرینہ حضرت جابر ؓ کی اس روایت کا ذکر کیا جس کا مضمون یہ ہے کہ جب پہلی آیت (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وقلیل من الاخرین “۔ نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ کو تعجب ہوا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ کی پہلی امتوں میں سابق زیادہ ہوں گے اور ہم میں کم تو اسکے کچھ عرصہ یا ایک سال بعد یہ دوسری آیت نازل ہوئی (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے عمر ؓ سن لو جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا دیا ہے (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین وان من ادم الی ثلۃ و امتی ثلۃ “۔ کہ آدم (علیہ السلام) سے مجھ تک ایک ثلہ ہے اور میری امت دوسرا ثلہ (گروہ) ہے۔ لیکن علامہ آلوسی (رح)، امام قرطبی (رح)، اور حافظ ابن کثیر (رح)، نے اس کے بالمقابل یہ تفسیر کی ہے کہ یہ دونوں طبقے اسی امت کے مراد ہیں اولین امت اور آخرین امت اولین امت خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم “۔ کے پیش صحابہ صحابہ تابعین اور تبع تابعین ہیں اور آخرین انکے بعد ہیں حضرت جابر ؓ کی وہ حدیث مرفوع جس باعث اولین سے مراد قبل از آنحضرت ﷺ امتیں ہیں محدثین کے اصول سے اس کی اسناد صیح نہیں ابن کثیر (رح) نے یہ فرمایا ہے فی اسنادہ نظر۔ روح المعانی میں علامہ آلوسی (رح) نے اس کی تائید میں ابوبکر ؓ کی ایک روایت ذکر کی ہے جس میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد واضح موجود ہے کہ آپ نے (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “ کی تفسیر میں فرمایا، ھما من امتی، کہ یہ دونوں گروہ میری امت میں سے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بعض سندوں سے یہی تفسیر منقول ہے۔ اور خود اس جگہ الفاظ قرآن اور آیات کا سیاق بھی اس معنی کو متعین کررہا ہے کیونکہ ارشاد فرمایا (آیت ) ” وکنتم ازواجا ثلثۃ “ اور یہ خطاب ظاہر ہے کہ صحابہ کو ہے جس سے یہی مفہوم ہوسکتا ہے کہ یہ تین گروہ امت ہی کے ذکر فرمائے جارہے ہیں ایک گروہ اصحاب المیمنہ دوسرا اصحابالمشئمہ تیسرا السابقون السابقون یعنی مقربین بارگاہ تو پہلی آیت (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وقلیل من الاخرین “ سابقون کو ذکر کیا جارہا ہے کہ مقربین وسابقین اولین امت میں تو ایک گروہ کثیر ہوگا اور یہ سابقین ومقربین آخرین امت میں قلیل ہوں گے لیکن دوسری دفعہ (آیت ) ” ثلثۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین “ میں اولین وآخرین میں گروہ کثیر ہونا اصحاب الیمین کا بیان فرمایا جارہا ہے اور اصحاب الیمین وہ مطلق جملہ اہل ایمان ہیں جو نجات کے مستحق ہوں گے اور جنت کی وہ نعمتیں ان کو عطا ہوں گی جن کا ذکر کیا گیا تو ایسے اہل ایمان وتقوی جو خواص مقربین سے کم درجے کے ہوں گے ان کے گروہ کثرت سے اولین امت میں ہوں گے اور ان کے گروہ کثرت سے آخرامت میں بھی ہوں گے الغرض امت محمدیہ کے تین گروہ کی تفصیل فرمادی گئی جس کا ابتداء ذکر (آیت ) ” وکنتم ازواجا ثلثۃ “ میں ہوا تھا۔ (واللہ اعلم بالصواب )
Top