Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ
: کیا نہیں دیکھا آپ نے
اِلَى
: طرف
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
حَآجَّ
: جھگڑا کیا
اِبْرٰھٖمَ
: ابراہیم
فِيْ
: بارہ (میں)
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَنْ
: کہ
اٰتٰىهُ
: اسے دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: بادشاہت
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّيَ
: میرا رب
الَّذِيْ
: جو کہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
قَالَ
: اس نے کہا
اَنَا
: میں
اُحْيٖ
: زندہ کرتا ہوں
وَاُمِيْتُ
: اور میں مارتا ہوں
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
:ابراہیم
فَاِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْتِيْ
: لاتا ہے
بِالشَّمْسِ
: سورج کو
مِنَ
: سے
الْمَشْرِقِ
: مشرق
فَاْتِ بِهَا
: پس تو اسے لے آ
مِنَ
: سے
الْمَغْرِبِ
: مغرب
فَبُهِتَ
: تو وہ حیران رہ گیا
الَّذِيْ كَفَرَ
: جس نے کفر کیا (کافر)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
: ناانصاف لوگ
(کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا اس کے رب کے بارے میں اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی ہے۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا تو رب وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے جواب دیا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ بیشک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال لا۔ تو وہ کافر یہ سن کر ششدر رہ گیا۔ اور اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰہٖمَ فِیْ رَبِّـہٖٓ اَنْ اٰ تٰـہُ اللّٰہُ الْمُلْـکَ م اِذْقَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمِ الْظّٰلِمِیْنَ ۔ ج کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا اس کے رب کے بارے میں اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی ہے۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا تو رب وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے جواب دیا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ بیشک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال لا۔ تو وہ کافر یہ سن کر ششدر رہ گیا۔ اور اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا) (258) سابقہ آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا تھا کہ مومن کا ولی اور مددگار اللہ ہوتا ہے۔ وہ اسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال کے لاتا ہے۔ اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں جو اسے روشنی سے تاریکیوں میں لے جاتے ہیں۔ اب اس رکوع میں اسی بات کی تین مثالیں دی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی مثال اس شخص کی ہے جس کے سامنے مضبوط دلائل کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حقیقت واضح فرمائی اور حق اس کے سامنے بالکل واضح ہو کر آگیا اور وہ اس پر لاجواب بھی ہوگیا۔ لیکن اس نے اپنا رشتہ چونکہ اللہ سے توڑ کر شیطان سے جوڑ رکھا تھا اور اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی اس لیے حق واضح ہوجانے کے باوجود وہ حق قبول کر کے روشنی کی طرف نہیں آیا۔ بلکہ وہ برابر تاریکیوں میں ہی بھٹکتا رہا حتیٰ کہ وہ اپنے انجام بد کو پہنچ گیا۔ الذی سے کیا مراد ہے ؟ یہاں جس شخص کا ذکر کیا جا رہا ہے مفسرین کا تقریباً اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد نمرود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم وطن اور آپ کے وطن عراق کا مطلق العنان بادشاہ تھا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ نمرود وہی شخص ہے تاریخ جسے حمورابی کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے اپنے رعایا کو ایک تحریری آئین دیا۔ عراق کے بعض علاقوں کی کھدائی میں بعض ایسے کتبے ملے ہیں جن پر اس کا آئین کندہ ہے۔ وہ آئین تو جیسا بھی تھا البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہ نمرود یا حمورابی ایک ایسا شخص تھا جو اپنی مملکت کو آئین کے مطابق چلانا چاہتا تھا۔ یہاں جس واقعے کا ذکر کیا جا رہا ہے بائبل میں تو اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ملتا ‘ البتہ تالمود میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑا وفادار ‘ سب سے بڑے عہدیدار کا منصب رکھتا تھا۔ میرا گمان یہ ہے کہ نمرود کے زمانے میں عراق میں جہاں مظاہر قدرت کی پوجا ہوتی تھی وہیں بت پرستی کا چلن بھی عام تھا اور بڑے بڑے بت خانے ملک میں پائے جاتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا والد سب سے بڑے بت خانے کا متولی یا نگران تھا اور جس طرح ہندوستان میں سب سے بڑے پروہت کو بادشاہ کے بعد دوسرے درجے کا آدمی سمجھا جاتا ہے اور راجے مہاراجے اسے سلام کرتے ہیں۔ یہی حال عراق میں بھی تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کھلم کھلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کندھے پر رکھ کے چلے آئے۔ تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا۔ اس طرح بادشاہ کے سامنے وہ ایک ملزم کی حیثیت میں پیش ہوئے۔ اور وہاں بادشاہ اور آپ ( علیہ السلام) کے درمیان جو گفتگو ہوئی ‘ اس کو نہایت اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ مابہ النزاع چیز کیا تھی ؟ اس گفتگو کو ذکر کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان مابہ النزاع چیز کیا تھی ؟ اس میں ایک رائے مولانا مودودی ( رح) کی ہے اسے ہم تفہیم القرآن سے نقل کرتے ہیں : ” یعنی اس جھگڑے میں جو چیز مابہ النزاع تھی ‘ وہ یہ تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنا رب کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اس جھگڑنے والے شخص ‘ یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ ان دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے۔ 1 قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائٹیوں کی یہ مشترک خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے۔ 2 خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural) خدائی ‘ جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رجوع کرتا ہے۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ارواح اور فرشتوں اور جنوں اور سیاروں دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ‘ ان سے دعائیں مانگتے ہیں ‘ ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی (یعنی حاکمیت) جو قوانین حیات مقرر کرنے کی مجاز اور اطاعت امر کی مستحق ہو اور جسے دنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے ‘ یا اس کے ساتھ شاہی خاندانوں اور مذہبی پروہتوں اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں اور اسے مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدائوں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں۔ 3 نمرود کا دعوئے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسباب عالم کے پورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں ‘ میری زبان قانون ہے ‘ میرے اوپر کوئی بالا اقتدار نہیں ہی ‘ جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے۔ 4 ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین ہی کو خدا اور معبود اور رب مانتا ہوں اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا قطعی طور پر منکر ہوں تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے ‘ بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑتی تھی ‘ اسے کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جرم بغاوت کے الزام میں نمرود کے سامنے پیش کیے گئے۔ (ماخوذ از : تفہیم القرآن) دیگر مفسرین بالعموم یہ بات لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے قریب قریب زمانوں میں عام طور پر جو بادشاہ ہوتے تھے وہ اپنے آپ کو اوتار بادشاہ کی حیثیت سے نمایاں کرتے تھے۔ یعنی ان کی قوم کے لوگ جن دیوتائوں کو پوجتے تھے بادشاہ ان میں سب سے بڑے دیوتا کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ نمرود بھی اپنے آپ کو سورج کا اوتار سمجھتا تھا۔ روایاتِ یہود میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی پرستش خدا ہی کی طرح کراتا تھا اور اپنے لیے اس نے ایک عرش الٰہی تیار کروایا تھا جس پر اجلاس کیا کرتا تھا بعض مفسرین کا خیال ہے کہ نمرود فرعون کی طرح اپنے آپ کو خدائے اعظم کا مظہر یا بروز یا اوتار سمجھتا تھا۔ رفتہ رفتہ خدائے واحد سے بھی جلنے لگا ‘ جو زیفس یہود کا مورخ قدیم اپنی تاریخ آثار یہود میں لکھتا ہے کہ نمرود لوگوں کی خوشحالی کو خدا کی جانب نسبت دینے سے روکتا تھا گویا وہ خود قادر علی الاطلاق ہے۔ وہ کہتا تھا کہ اگر اب خدا نے طوفانِ نوح کی طرح دنیا کو ڈبویا تو میں اس سے انتقام لوں گا۔ اپنے بارے میں اس کے یہی مزعومات یا توہمات تھے جس کی وجہ سے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے دربار میں طلب کیا اور آپ سے سوال کیا کہ اس سرزمین کا رب تو میں ہوں تو کس رب کی لوگوں کو دعوت دیتا ہے ؟ اپنے رب کا تعارف کروائو تاکہ میں بھی جانوں کہ وہ کون ہے ؟ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” میرا رب وہ ہے جو زندگی اور موت پر قادر ہے۔ “ یعنی موت وحیات کی ساری قوتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی سارے نظام ربوبیت کا سرچشمہ ہے۔ کسی بندہ میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے نظام حیات و ممات کو بدل دے۔ نمرود اس بات کی حقیقت کو یا تو سمجھا نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس نے کہا ” زندگی اور موت پر تو میں بھی قادر ہوں ‘ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ “ سامانِ معیشت سب میرے ہاتھ میں ہیں میں جسے چاہوں روزی دوں اور جسے چاہوں بھوکا مار ڈالوں۔ بعض روایات میں کہا گیا ہے جن کی اسنادی حیثیت بہت کمزور ہے کہ نمرود نے ایک بےگناہ کو قتل کروا دیا اور ایک ایسا شخص جسے پھانسی ہونے والی تھی اسے رہا کردیا اور کہا دیکھو میں جسے چاہوں زندگی دے دوں اور جسے چاہوں موت سے ہمکنار کر دوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بجائے اس کے کہ اس دلیل پر اصرار کرتے اور اس کی حقیقت واضح کرنے کی کوشش فرماتے۔ آپ نے اندازہ کرلیا یہ شخص بات کو الجھانا چاہتا ہے تو آپ ( علیہ السلام) نے اس دلیل پر اصرار کرنے کے بجائے دوسری دلیل دی۔ اللہ کے نبی چونکہ مناظر نہیں ہوتے بلکہ داعی ہوتے ہیں اس لیے ان کے سامنے ہمیشہ دعوت کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔ نمرود چونکہ سورج دیوتا کا اوتار تھا اور سورج ہی کلدانیوں کے عقیدہ میں معبود اعظم تھا چناچہ آپ نے بات کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ان کے معبود اعظم کے حوالے سے فرمایا کہ تم سورج کے قادر و متصرف ہونے کے توقائل ہو زیادہ نہیں تو یہی کر دکھائو کہ سورج اپنے ارادہ سے عام سنت الٰہی کے خلاف ذر ا اپنا رخ ہی بدل دے۔ دوسروں پر اس کے ارادہ و تصرف کی بات تو الگ رہی وہ خود اپنے اوپر ہی تصرف کر کے دکھائے ‘ کسی خدا کی بےبسی کا منظر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے ؟ چناچہ جیسے ہی آپ نے فرمایا کہ اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں ڈبوتا ہے تم اتنا کرو کہ اسے مغرب سے نکال کر دکھا دو ۔ یعنی تم اپنے معبود اعظم سے کہو کہ معاملہ چونکہ حق و باطل کے معرکے کا ہے کہ ایک نوجوان تمہارے بنیادی عقیدے کو چیلنج کر رہا ہے۔ ایسے میں خاموشی تو بڑی خطرناک بات ہے اس لیے ذرا اپنا رخ بدل کر اپنے معبود اعظم ہونے کو ثابت کرو۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ کافر یہ سن کر مبہوت اور ششدر رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی قوت گویائی سلب ہوگئی ہے۔ آخر میں فرمایا ظالم کا مفہوم وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمِ الْظّٰلِمِیْن (اللہ ظالم قوم کو راستہ نہیں دکھاتا) نمرود چونکہ ظالم تھا اور اس لیے اسے بحث میں خفت اٹھانی پڑی اور وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ قرآن کی اصطلاح میں ظالم سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی نعمتوں اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو بےجا استعمال کرتے ہیں۔ اللہ انھیں جو انعامات دیتا ہے ‘ انھیں اللہ کا فضل قرار دینے کی بجائے اپناحق سمجھتے ہیں۔ وہ خدائے منعم کا شکر گزار ہونے کے بجائے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ نمرود کو اللہ نے حکومت اور مملکت عطا کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر گزار بندہ بنتا لیکن اس نے اقتدار کو اپنا استحقاق سمجھ لیا۔ وہ بالکل بھول گیا کہ اللہ نے اقتدار دے کر اس کا امتحان لیا ہے۔ وہ استکبار کا شکار ہو کر خود رب بن بیٹھا اور خدائی کا تخت بچھا کر اللہ کے مقابلے میں احکام دینے لگا۔ ایسا ظالم شخص اللہ کی ہدایت سے کس طرح فیضیاب ہوسکتا تھا۔
Top