Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 47
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات کو لباس، نیند کو آرام اور دن 59 کو جی اٹھنے کا وقت بنایا ہے۔
59 اللہ تعالیٰ کا ایک انعام یہ ہے کہ اس نے رات کو تاریک اور ہر چیز کو ڈھانپنے والا بنادیا۔ تاکہ دن بھر کے تھکے ماندے لوگ رات کو آرام کرسکیں۔ اور آرام کے لئے رات کی تاریکی اور خاموش ماحول بہت ساز گار ہوتا ہے رات کو نیند بھی اللہ کی ایک خاص نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر اس شخص سے پوچھئے جسے رات کو نیند نہ آتی ہو۔ پر اس نیند میں بھی اللہ تعالیٰ کی کئی نشانیاں ہیں۔ دن بھر کام کرنے سے اور۔۔ جسم کے کچھ خلیے حرارت سے جل جاتے ہیں۔ جب انسان سوتا ہے تو ان جلے ہوئے خلیوں کی جگہ نئے خلیے پیدا ہوجاتے ہیں اور جب یہ عمل پورا ہوچکتا ہے تو انسان کو جاگ آجاتی ہے اور وہ تازہ دم ہو کر دوسرے دن کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے انسان جس قدر زیادہ تھکا ہوا ہوگا۔ اتنی ہی اسے گہری نیند آئے گی اور تادیر آئے گی۔ تاکہ اس کے جلے ہوئے خلیوں کی تلافی۔۔ ہوسکے۔ بعض دفعہ انسان گہری نیند کی علامت کے طور پر خراٹے بھی لیتا ہے یہ اللہ کی ایک اور نشانی ہے اور بعض دفعہ خواب بھی دیکھتا ہے۔ اب اگر خواب کی حقیقت پر غور کرنا شروع کیا جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کے اس محیرالعقول کرشمے کی پہنائیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں کیا کچھ عجائبات سمو دیئے ہیں۔ اس آیت سے سرسری طور پر جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے اللہ نے کام کاج کے لئے دن اور آرام کے لئے رات بنا لی ہے۔ اب اگر انسان اس کا الٹ کرے گا یعنی رات کو کام اور دن کو آرام کرے گا تو اس کے نتائج انسان کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتے اور اس کی صحت تادیر قائم نہ رہ سکے گی۔
Top