Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ وہ ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھوڑ کر نکالتا ہے ‘ جو بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان کو نکالتا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے پھر تم کیوں بہکے جارہے ہو ؟
لغات القرآن : آیت نمبر 95 تا 98 : فالق (تنہا) الحب ( تم نے چھوڑا) النوی ( ہم نے دیا) ‘ الحی ( زندہ) المیت (مردہ) الاصباح ( صبح) سکن (سکون) ‘ تقدیر ( اندازہ) ‘ النجوم ( نجم) ۔ ستارہ) مستودع ( سپرد کرنے کی جگہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 95 تا 98 : ان آیات میں اور ان کے بعد آنیوالی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو مٹانے کے لئے انسان کو بصارت اور بصیرت کی دعوت دی ہے۔ وہ معاملات فطرت جو دن رات مستقل طور پر ہوتے رہتے ہیں ‘ عموماً انسان انہیں نظر انداز کرجاتا ہے۔ اگر دیکھتا بھی ہے تو صرف ظاہر کو۔ اگر متاثر ہوتا ہے تو ان کی پرستش کرنے لگتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ ان مظاہر فطرت کے پیچھے حقیقی خالق ومالک کون ہے۔ ؟ عام طور پر جو چیزیں پوجی جاتی ہیں وہ ہیں غذائی نباتات اور کائنات کی چھوٹی بڑی چیزیں یعنی غلہ اور پھل ‘ سورجذ چاند ستارے اور باپ ماں اولاد اور مردے۔ ہندوستان میں تلسی ‘ سورج مکھی ‘ کنول ‘ کٹھل ‘ برگدو غیرہ بھی عام طور پر پوجے جاتے ہیں کفر کا کون سا مذہب ہے جس میں چاند سروج اور ستاروں کو دیوتا او دیوی قرار نہ دیا گیا ہو یہاں تک کہ قدیم ایران ‘ ہندوستان ‘ چین ‘ قدیم مصر وغیرہ میں تو باشاہوں کو سورج کا بیٹا چاند کا بیٹا یا چاند کا باٹن تک کہا جاتا تھا اور ان کی پوجا ہوتی تھی۔ ہندوؤں میں تری مورتی کا تیسرا ممبر دیوتا و شنو ہے جو تناسل او پیدائش کا قلم دان رکھتا ہے۔ اس لئے والدین اور اولاد کی بھی پوجا ہوتی ہے۔ اگرچہ ہندوؤں میں ‘ یونانیوں میں ‘ آتش پرستوں وغیرہ میں موت کا دیوتا ہے لیکن مردہ پرستی کا جو ریکارڈ چین کے بد مذہب ‘ کنفیوشس مذہب اور ٹائو مذہب نے قائم کیا ہے وہ توحیرت ناک ہے شاید کوئی اس کا مقابلہ کرسکتا ۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں حقیر دانہ تخم کو یہ صلاحیت عطا کرنا کہ زمین کو پھاڑ کر کونپل نکالے ‘ گھٹلیوں کو پھاڑ کر اندر سے سر نکالے اور پھر رفتہ رفتہ کھیت اور باغ بنادے۔ ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر ہر منزل پر وہ دانہ اللہ تعالیٰ کے اشارے کا محتاج ہے۔ اس کے حکم سے وہ پیدا ہوتا ہے ‘ بڑھتا ہے ‘ پھلتا اور پھولتا ہے ان بےحقیقت چیزوں کو پوجنے والوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم گھاس پھوس پتے ‘ پھل ‘ پھول ‘ اور درخت کی پوجا کررہے ہو۔ تمہیں تو اس طاقت کی عبادت کرنی چاہیے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔ وہی اللہ ہے جو اپنی قدرت اور حکمت سے جاندار مرغی سے بےجان انڈا نکالتا ہے اور بےجان انڈے سے جاندار مرغی ‘ یہ جتنے انسان چرندے پرندے درندے جیتے ‘ جاگتے ‘ چلتے ‘ پھرتے نظر آرہے ہیں ابتدائی منزل میں بےجان نطفہ تھے اور آئندہ جتنے جاندار آئیں گے بےجان نطفوں سے آئیں گے زمین پر اور پانی میں یہی اصول کام کررہا ہے۔ کسی جاندار یا بےجان میں طاقت نہیں ہے کہ وہ اولاد پیداکرے۔ اس سلسلہ تناسل کے پیچھے صرف ایک اللہ ہی کی طاقت اور حکمت کار فرما ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اور قائم رہے گی۔ روشنی ‘ اندھیرا ‘ دن رات ‘ سورج ‘ چاند اور ستاروں کا ایک خاص نظام الاوقات ہے اور ان کے راستوں میں وہ پابندی ہے جو زندگی کو ممکن بلکہ مزیددار بناتی ہے۔ اگر کبھی ذرا سا بال برابر فرق ہوجائے تو دنیا کا نظام بگڑ جائے۔ یہ ستارے کچھ روشنی تو زیادہ نہیں دیتے لیکن یہ سمندروں اور صحراؤں میں جب کہ انسان بھٹک جاتا ہے کہ کدھر جاؤں اور کدھر نہ جاؤں اس وقت یہ راستہ بتاتے ہیں۔ یہ سارا نظام فلک کون چلارہا ہے ؟ یہاں پر روشنی اور اندھیرے دن اور رات کا تذکرہ آیا ہے یہ اسیکم کس نے بنائی اور عمل کس نے کیا۔ جس طرح کام کے لئے دن ضروری ہے اسی طرح آرام کے لئے رات ضروری ہے۔ یہ ان کا باقاعدہ آنا اور جانا ‘ صحیح مدت کے لئے آنا اور صحیح مدت کے لئے جانا ‘ صحیح درجہ حرارت بڑھانا اور گھٹانا تاکہ نہ صرف زندگی چلے ‘ بلکہ کام بھی ہوتا رہے۔ اور ساتھ ساتھ آرام بھی ہوتا رہے۔ یہ کس کی قدرت ‘ حکمت اور رحمت ہے ؟ ۔ کیا یہ اللہ کی حکمت نہیں ہے کہ ایک ہی جوڑے آدم (علیہ السلام) وحوا سے اتنے اربوں اور کھربوں انسان بنادئے اور وہ بنتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اور جس طرح پیدائش اس کے ہاتھ میں ہے اسی طرح موت بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح اس نے اک اک شخص کی پیدائش کا وقت اور مقام مقرر کر رکھا ہے ‘ اسی طرح اس نے اک اک شخص کی روزی کا وقت اور مقام بھی اور پھر موت کا وقت اور مقام بھی مقررکر رکھا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو فوراً یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائیگی کہ ان سارے اور دوسرے کاموں میں اللہ کا کوئی شریک ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن ان سچائیوں کے باوجود بھی انسان بہک کر دوسرے جھوٹے معبودوں کی طرف لپکتا ہے۔
Top