Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک ! اللہ ہی دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ برآمد کرتا ہے ‘ زندہ کو مردہ سے اور وہی برآمد کرنے والا ہے ‘ مردہ کو زندہ سے۔ بس وہی اللہ ہے تو تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو
سورة الانعام میں باقی مکی سورتوں کی طرح توحید ‘ رسالت اور آخرت کو بنیادی عقائد کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور مختلف اسالیب میں مسلسل اس پر بحث جاری ہے۔ انداز اس کا یہ ہے کہ زیادہ تر زور عقیدہ توحید پر دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور کبھی اس کے ضمن میں رسالت اور آخرت کو بھی موضوع بنایا جاتا ہے۔ دلائل کا انداز بےحد متنوع ہے ‘ کہیں دلائل آفاق کا ذکر ہے کہیں دلائل انفس کا۔ کہیں عقلی دلائل سے کام لیا جاتا ہے ‘ کہیں فطری اور تاریخی دلائل سے۔ دو رکوع پہلے تاریخی دلائل کے ضمن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت کی تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے ان کے استدلال کے انداز کو بھی واضح فرمایا گیا۔ لیکن اس سلسلہ دلائل میں بطور خاص یہ بات نظر آتی ہے کہ موضوع کو ثابت کرنے کے لیے صرف دلائل کا انبار فراہم نہیں کیا جاتا جو عام طور پر علمی کتابوں کا اسلوب ہوتا ہے بلکہ دلائل کے ساتھ ساتھ تحریک اور زندگی کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے اور مخاطبوں کی جانب سے پیش کردہ مطالبات ان کی ذہنی الجھنوں اور ان کے اعتراضات کا ازالہ کرنے کی کاوشیں بھی جاری رہتی ہیں اور ان کو صراط مستقیم کی طرف مائل کرنے کے لیے ترغیب اور ترہیب کا انداز بھی پہلو بہ پہلو چلتا رہتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ضرورتوں کے حوالے اسے اس کی ہمہ گیری کے باوصف مضمون اور موضوع کا سر رشتہ کہیں چھوٹنے نہیں پاتا۔ آدمی اس کو پڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ میں زندگی کے ایک عمل سے گزر رہا ہوں جس میں تبلیغ و دعوت رواں دواں ندی کی طرح آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن مخالفتوں اور مطالبات کے پتھر بھی بار بار اس میں آآ کر گرتے ہیں لیکن یہ ندی ان سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھتی ہے۔ ان آیات میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سلسلہ دلائل کو بیان کرتے ہوئے مخالفین کے رویے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ درمیان میں ان کے دل و دماغ کی بنیادی خرابیوں کی طرف توجہ بھی دلائی گئی ہے اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت میں پیش آنے والی صورت حال سے بھی آگاہ کیا گیا ہے لیکن پھر اچانک سلسلہ بیان اسی اصل موضوع کی طرف پلٹ گیا ہے جو اس سورة کا اصل مدعا ہے۔ چناچہ اس رکوع کے آغاز سے ہی مسلسل کئی آیات تک اسی بنیادی عقیدہ توحید پر دلائل آفاق کا ذکر کیا جا رہا ہے اور ضمناً رسالت اور آخرت کے عقیدے کو بھی اس طرح ثابت کیا جا رہا ہے کہ دل و دماغ ہموار ہوئے جاتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : اِنَّ اللہ َ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی ط یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ط ذٰلِکُمُ اللہ ُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ۔ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (الانعام : 95۔ 96۔ 97) (بےشک ! اللہ ہی دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ برآمد کرتا ہے ‘ زندہ کو مردہ سے اور وہی برآمد کرنے والا ہے ‘ مردہ کو زندہ سے۔ بس وہی اللہ ہے تو تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو۔ وہی برآمد کرنے والا ہے صبح کا اور اس نے رات سکون کی چیز بنائی اور سورج اور چاند اس نے ایک حساب سے رکھے۔ یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے۔ تاکہ تم ان سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کرو۔ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کردی ہیں ‘ جو جاننا چاہیں ) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے وجود اور وحدانیت پر دلائل عطا فرمائے ہیں اور ضمناً عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت کو بھی نہایت آسان صورت میں واضح فرمایا ہے۔ لیکن انداز ایسا ہے جس سے براہ راست دل پر دستک محسوس ہوتی ہے۔ علمی انداز جو علمی مقدمات پر مشتمل ہو اس سے کسی بات کو ثابت کرنا عام اہل علم کا انداز ہے لیکن اس سے دماغ کو وقتی طور پر متاثر تو کیا جاسکتا ہے لیکن سکون اور اطمینان مہیا کرنا یہ اس سے بہت نادر ہوتا ہے۔ عموماً علمی استدلال جانبین کی طرف سے دماغی کشتی بن کے رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم اگرچہ ہر طرح کے طریق استدلال کو استعمال کرتا ہے لیکن اس کا پسندیدہ انداز یہی ہے۔ وہ موصوف کو اس کی صفات سے ثابت کرتا ہے۔ وہ خالق کے ثبوت کے لیے مخلوق کے وجود سے استدلال کرتا ہے ‘ وہ ایک موجود چیز سے جس کا علم اور یقین ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کے دل میں موجود ہے، سے اس ذات پر استدلال کرتا ہے جو نہ حواس کی گرفت میں آتی ہے اور نہ عقلی پیمانے اس کو سمیٹ سکتے ہیں۔ جس طرح کسی شاعر کے تعارف کے لیے اس کی شکل و صورت ‘ اس کا نین نقشہ بیان نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا اصل تعارف اس کے اشعار ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے ایک ایک شعر میں نظر آتا اور پہچانا جاتا ہے۔ معمار اپنی تعمیر سے ‘ خطیب اپنے خطبے سے ‘ ناظم اپنے نظم سے اور قائد اپنی قیادت سے اور سیاست دان اپنی سیاست سے اپنی صحیح پہچان ثابت کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا صحیح تعارف اور اس کے وجود پر صحیح استدلال اس کی صفات سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے ان آیات میں یہی طریق استدلال بروئے کار لایا گیا ہے۔ سب سے پہلے زمین کی چھوٹی چھوٹی لیکن سامنے کی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے اور پھر رفتہ رفتہ استدلال میں وسعت آتی گئی ہے۔ دلائل قدم قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں اور بالآخر پوری کائنات کی وسعتوں میں جانی پہچانی چیزیں دلائل کے طور پر پیش کردی گئی ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے انکار اور یا اس کے ساتھ شرک کی جتنی صورتیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں ان کی تردید کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے۔ چناچہ سب سے پہلی چیز جس سے استدلال کیا جا رہا ہے وہ ایک ایسی چیز ہے جس سے دنیا کا کوئی فرد ناواقف نہیں ہوسکتا۔ بچوں کو چھوڑ کر کسی بھی باشعور آدمی سے پوچھا جائے کہ تمہیں یہ جو روٹی کھانے کو ملتی ہے یہ کہاں سے آتی ہے اور تم جن پھلوں سے لذت کام و دہن کا سامان کرتے ہو وہ تمہیں کہاں سے حاصل ہوتے ہیں تو کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو یہ نہ جانتا ہو کہ یہ چیزیں ہمیں کہاں سے ملتی ہیں اور ان کے وجود میں آنے کا پر اسس کیا ہے۔ چناچہ سب سے پہلے اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ ہی کی ذات ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والی ہے۔ دانہ پھٹتا ہے تو ایک ایک دانے سے سات سات سو دانے وجود میں آتے ہیں۔ ایک گٹھلی پھٹتی ہے تو اس سے ایک قد آور درخت جنم لیتا ہے یہی دانے جمع ہو کر کھلیان بنتے اور ہماری غذا کا سامان کرتے ہیں اور وہی پھل دار درخت پھلوں کے انبار پیدا کرتے اور انسانوں کی غذا اور لذت کام و دہن کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ جس ذات خداوندی نے ہماری ان ضرورتوں کو پورا فرمایا ہے جن کے بغیر زندگی کی بقاء کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس ذات کے وجود کا انکار یا اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا بجائے خود ایک بہت بڑی حماقت اور جہالت کی بات ہے لیکن اگر اس پورے سلسلہ عمل کو دیکھا جائے جس سے یہ ہماری غذا وجود میں آتی ہے تو آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ ایک کاشتکار زمین کے سینے میں اناج کا ایک دانہ دفن کرتا ہے۔ اس پر سہاگہ پھیر کر اس کو پوری طرح چھپا دیتا ہے۔ زمین کی مٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ جو چیز اس میں دفن کردی جائے وہ گل سڑ جاتی ہے اور زمین اس کو نگل لیتی ہے ‘ لیکن یہاں حیرت کی بات ہے کہ دو تین روز کے بعد ہی ہم دیکھتے ہیں کہ زمین میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں اور اس دانے کے اندر سے نکلتی ہوئی سوئی کو ہم دیکھتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے ایک پودے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوجاتی ہے پھر اس سے خوشے نکلتے ہیں ‘ ایک ایک خوشے میں سات سات بالیاں وجود میں آتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پڑتے ہیں۔ اس طرح ایک دانہ سات سو دانوں کی وسعتوں میں ڈھل جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے یہ دانہ کس نے پھاڑا ‘ زمین کا سینہ کس نے شق کیا پھر یہ سوئی جو نکلی اس کو ایک پودے کی شکل کس نے دی اور پھر اسی پر بس نہیں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی آبیاری کا سامان کیا جائے کیونکہ اگر اس کو پانی نہ ملا تو یہ پودا سوکھ کے ضائع ہوجائے گا۔ چناچہ سمندر اور دریائوں سے سورج کو حکم دیا جاتا ہے کہ تم اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کے کھینچو اور پھر فضاء کی وسعتوں میں ابر کی چادروں کی شکل میں بچھا دو ۔ پھر ہوا کو حکم دیا جاتا ہے کہ جہاں دانہ گندم نے اپنی آغوش کھول کر ایک پودے کو نکالا ہے وہاں ابر کی چادروں کو لے جا کر چھم چھم پانی برسائو اور زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں جتنا پانی اپنی آبیاری کے لیے ضروری ہے وہ نگل لو اور باقی اگل ڈالو تاکہ وہ پانی کے ذخیروں میں پہنچ کر محفوظ ہوجائے۔ ہاں یہ دیکھنا کہ ضرورت سے زیادہ نگل کر کہیں زمین کو دلدل نہ بنادینا ورنہ کوئی پودا وہاں اگ سکے گا نہ انسانی آبادی وہاں ممکن رہے گی اور پھر مزید یہ کہ سورج کو حکم دیا کہ تم اپنی حدت اور تمازت سے غلے کو پکائو اور چاند کو حکم دیا کہ تم ان میں نرمی اور گداز پیدا کرو۔ موسمی تغیرات کو اپنا فرض انجام دینے کی ہدایت کی گئی۔ اس طرح تمام عناصر قدرت ایک دانہ گندم اور گٹھلی کے ایک پودے کو پروان چڑھانے اور اس کی نمود و پرداخت کو بروئے کار لانے میں اس طرح جت جاتے ہیں کہ انھیں سوائے اس کام کے کسی اور کام کا ہوش ہی معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن جب ان کی باہمی خصوصیات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو حیرت کی انتہاء نہیں رہتی کہ زمین اور آسمان دونوں ایک دوسرے کے مقابل اور متضاد ہیں۔ پانی اور دھوپ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ مٹی اور ہوا میں کوئی موافقت نہیں لیکن یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام متضاد عناصر مل کر باہمی توافق پیدا کرتے اور کندھے سے کندھا ملا کر ایک فرض کی ادائیگی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اگر یہ سب اپنے طور پر ایسا کر رہے ہوتے تو ان کا باہمی تضاد ختم ہوجاتا۔ لیکن وہ تو علی حالہ قائم رہتا ہے لیکن فرض کی ادائیگی میں کبھی کمی نہیں آتی۔ انہی باتوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو تم غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اور تمہاری غذا کا سررشتہ ایک ایک دانے اور ایک ایک گٹھلی کے ساتھ وابستہ ہے اور تمہاری آنکھوں کے سامنے انہی سے کھیت لہلہاتے اور باغ بہار دیتے نظر آتے ہیں اور تم ان کی نمود و پرداخت پر جب غور کرتے ہو تو تمام عناصر قدرت اس میں اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہاں کوئی اللہ کی ذات نہ ہوتی ‘ کوئی یہاں رزق دینے والا نہ ہوتا ‘ کوئی پیدا کرنے والا خالق نہ ہوتا تو تم یہ جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور جن سے تم لذت کام و دہن کا کام بھی لیتے ہو اور جس سے تم اپنی شکم پری کی ضرورت پوری کرتے ہو آخر یہ سب کچھ کہاں سے آگیا۔ کیا ایک ایک دانہ اور ایک ایک پھل اور ایک ایک پودا اور سبزے کی ایک ایک ٹہنی کیا اللہ کے وجود پر دلالت نہیں کرتی ؟ کیا ہوا کے جھونکے کیا سورج کی کرنیں کیا پانی کی بوندیں اور کیا بادلوں کی کڑک اور کیا بجلی کی چمک اور کیا شگوفوں کی تازگی اور کیا پھولوں کی رعنائی اور کیا پھلوں کی مہک اور مٹھاس کسی خالق کے وجود کی طرف توجہ دلاتی ہوئی نظر نہیں آتی ؟ کیا ان میں سے ایک ایک چیز اس کی ذات کی نغمہ سنجی کرتی ہوئی سنائی نہیں دیتی ؟ اگر واقعی ایسا ہے اور یقینا ہے تو پھر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لے کر کائنات کے بڑے سے بڑے کرے تک ہر چیز اللہ کے وجود پر دلالت کر رہی اور شہادت دے رہی ہے۔ اسی طرح ایک اور حقیقت بھی اپنی طرف ہمیں متوجہ کر رہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ بھی کیا ہے کہ ہمیں غذا کی فراہمی کے لیے تمام عناصر قدرت اور عناصر فطرت مل کر مصروف عمل ہیں۔ اور ان میں آپس میں اس حد تک تضاد ہے کہ ان کی خصوصیات اور ان کے فرائض بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ لیکن یہاں اس خدمت کو انجام دیتے ہوئے ہم ان میں ایسا توافق اور ایسی مطابقت دیکھتے ہیں جس کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہیں آتی کہ یہاں کا پورا سلسلہ مخلوقات ایک پروردگار کے حکم کے تابع ہے ‘ وہ جس طرح اور جیسا ان کو کرنے کا حکم دیتا ہے وہ ویسا ہی کرنے اور حکم بجا لانے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا آقا ‘ ان کا خالق ومالک ایک نہ ہوتا بلکہ ایک سے زیادہ ہوتے تو کیا ان متضاد عناصر میں ہمیں کہیں توافق نظر آسکتا تھا۔ ایک اگر آسمان کا خدا ہوتا اور دوسرا زمین کا تو کیا آسمان کا خدا زمین کے پودوں کی نمود و پرداخت کے لیے سورج اور چاند کو ان کی موافقت میں کام کرنے کی اجازت دیتا ؟ کیا آسمان سے بارش برستی ؟ کیا شبنم سخاوت سے کام لیتی ؟ کیا سورج زمین کے ایک ایک دانے کو اسی طرح پکاتا ؟ کیا چاند ایک ایک پھل میں ایسے ہی گداز پیدا کرتا ؟ یقینا ایک سے زیادہ خدا ہونے کی صورت میں ایسا کبھی بھی ممکن نہ ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مخلوق یا تو وجود میں ہی نہ آتی اور اگر آتی بھی تو خدائوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں مخلوق اور زمین و آسمان تباہ و برباد ہوجاتے۔ پھر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا پروردگار صرف دانے اور گٹھلی ہی کا پروردگار نہیں جس سے تمہیں رزق بہم پہنچتا ہے بلکہ جس طرح وہ سڑی ہوئی گٹھلی سے ایک ہرے بھرے درخت کو نکالتا ہے اور پھر اس ہرے بھرے درخت پر ایک وقت آتا ہے کہ مردنی چھا جاتی ہے اور بالآخر وہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وہ کائنات کی ہر زندہ چیز کو پردہ عدم سے نکال رہا ہے اور پھر زندگی ملنے کے بعد دوبارہ اس کو موت کا شکار بھی کردیتا ہے۔ یعنی زندگی اور موت اس کے قبضے میں ہے وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے یعنی پردہ عدم سے ایک زندہ چیز کو منصہ شہود پہ لاتا ہے پھر زندگی کے سفر کے خاتمے پر اس پر موت طاری کردیتا ہے۔ یہ بےجان چیزوں سے زندگی کے اظہار اور زندگی کے اوپر موت اور فنا کے طاری ہونے کی ایک جامع تعبیر ہے۔ چاہے آپ اس کو مثال کے طور پر سمجھانے کے لیے یوں کہہ دیں کہ وہ انڈے سے مرغی کو نکالتا ہے اور مرغی سے انڈے کو پیدا کرتا ہے لیکن یہ صرف ایک مثال ہے اصل بات جو کہنے کی ہے وہ یہی ہے کہ زندگی اور موت اس کے قبضے میں ہے۔ وہ عدم سے زندگی کو وجود دیتا ہے اور پھر زندگی کے اوپر جب چاہتا ہے موت اور فنا طاری کردیتا ہے اور یہ اس کا ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ اس سے انسان بھی گزر رہے ہیں ‘ حیوان بھی اور کائنات کا ایک ایک فرد اس قانون کی گرفت میں ہے۔ پھر جس طرح افراد اس سے دوچار ہوتے ہیں اسی طرح قومیں بھی پردہ عدم سے نکلتی ہیں دنیا پر اپنی سطوتوں کے پھریرے لہراتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہی قومیں پردہ عدم میں جا چھپتی ہیں۔ اگر خدا کے سوا کسی اور کا بھی اس کائنات میں مالکانہ اور خودمختارانہ تصرف ہوتا تو کبھی کسی ایک ہی گوشہ میں اس قانون کو باطل کر کے بھی دکھاتا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ یہ زندگی اور موت کا جو اٹل قانون اللہ نے بنادیا ہے اس کی کارفرمائی اربوں سال سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ یہ اس کے قوانین بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہاں ایک ہی ذات کی کارفرمائی ہے اگر اس کے علاوہ کوئی اور مقتدر ذات بھی ہوتی تو کبھی تو ان قوانین کی شکست و ریخت کی صورت نظر آتی۔ اس آیت کریمہ میں الفاظ کی تعبیر بھی قابل توجہ ہے کہ پہلے جملے میں ارشاد فرمایا کہ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے لیکن اس کے بعد بجائے یُخْرِجُ کے مُخْرِجُ الْمَیِّتِ فرمایا گیا یعنی وہ مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے یعنی فعل کی بجائے اس میں فاعل استعمال کیا گیا وجہ اس کی یہ ہے کہ فعل صرف صدور فعل اور اظہارِ فعل پر دلالت کرتا ہے لیکن اسم فاعل ایک عزم ‘ فیصلے ‘ اقتدار اور قوت کی خبر بھی دیتا ہے مقصود یہ ہے کہ جب کوئی زندگی سے بہرہ ور نہیں ہوتا تو اس کو زندگی عطا کردینا اللہ کی قدرت کا اظہار ہے۔ لیکن جب اسے زندگی مل جاتی ہے تو وہ زندگی کی بقاء کے لیے کوشاں رہتا ہے اب اگر اللہ تعالیٰ اس سے زندگی چھیننا چاہتے ہیں تو وہ یقینا اس پر راضی نہیں ہوتا اور وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی بچائوں۔ حیوانات میں بھی یہ طرز عمل ہمیں نظر آتا ہے اور انسان تو اپنی عقل سے کام لے کر اپنے بچائو کی ایسی ایسی تدبیریں کرتا ہے کہ آدمی دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ عدم سے وجود دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ وجود کو دوبارہ پردہ عدم میں لے جانے پر بھی قادر ہے۔ کوئی اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ اللہ اس کی زندگی واپس لینا چاہے تو وہ دینے سے انکار کر دے جس طرح ایک عام آدمی اس کے سامنے بےبس ہے۔ بادشاہ اور ارباب اقتدار بھی اسی طرح اس کے سامنے عاجز ہیں۔ جو بڑے بڑے بادشاہ اپنے آپ کو رب تک کہلاتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو جہاں پناہ اور جہاں گیر تک کے القاب سے ملقب کرتے رہے ہیں جب ان کی بھی موت کا وقت آیا تو وہ اپنے سارے کرو فر اور لشکروں سمیت اپنے آپ کو موت سے نہ بچا سکے۔ یہاں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ذات خداوندی جو ایک دانے اور گٹھلی سے لے کر تمام کائنات کی زندگی اور موت پر قدرت رکھتی ہے جس نے تمہیں زندگی سے نوازا اور پھر اس کے امکانات بھی پیدا فرمائے جس نے تمہاری بقاء اور تسلسل کو باقی رکھا اور جس نے تمہیں گوناں گوں نعمتوں سے گراں بار کیا اور جس کی قدرت اور جس کی ربوبیت تم اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی دیکھ رہے ہو اور تمہارا انگ انگ جس کے احسانات میں جکڑا ہوا ہے اور تمہاری فعلی اور انفعالی قوتیں جس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور تم صاف محسوس کرتے ہو کہ ایک ہی ذات کی قدرت ہے جو تم پر اور پوری کائنات پر حاوی ہے تو پھر تم اس کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی وادیوں میں کیوں بھٹکتے پھر رہے ہو۔ یہی تمہارا اللہ ہے پھر تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو۔ آخر تمہاری عقل کام کیوں نہیں دیتی اور تم اس سامنے کی بات کو دیکھنے سے عاجز کیوں ہوئے جاتے ہو۔ اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح تمہارا پروردگار زمین اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور مالک ہے اور ان پر اپنی بےپناہ قدرت رکھتا ہے اور جس طرح وہ ایک دانے کو پھاڑتا اور گٹھلی کو شق کرتا ہے اسی طرح جب رات کے طاری ہونے کے بعد تاریکی گہری ہوجاتی ہے اور آسمان کی وسعتوں میں ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کے سوا کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ظلمت کی حکمرانی شاید کبھی زوال پذیر نہیں ہوگی اور ہم شاید کبھی روشنی کی شکل نہیں دیکھ سکیں گے کہ اچانک ظلمت کی اس تنی ہوئی چادر میں شگاف پیدا ہوتا ہے۔ اس تنی ہوئی چھت میں دراڑ ابھرتی ہے جو بڑھتے بڑھتے روشنی کی لکیر کی شکل میں صبح کی نوید بن جاتی ہے۔ کہا دیکھو جس طرح وہ پروردگار زمین پر قدرت کاملہ رکھتا ہے اسی طرح آسمان پر بھی اسی کی حکومت ہے اور وہی تاریکی کو پھاڑ کر صبح برآمد کرتا ہے۔ لیکن یہ مت سمجھو کہ صبح برآمد ہونے تک جو رات طاری تھی وہ شاید تمہاری محرومی کا کوئی باب تھی یا تمہارے لیے کوئی سزا تھی جس سے تمہیں گزارنے کے بعد روشنی کی نعمت عطا کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح صبح اللہ کی بیش بہا نعمت ہے اسی طرح رات اور رات کی تاریکی بھی صبح ہی کی طرح اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا کہ وہی اللہ نے جس نے رات کو سکن بنایا۔ سکن ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی آرام اور راحت محسوس کرتا ہے اور جس میں دل کو سکون ملتا ہے۔ اس لیے قرآن پاک میں گھر کو بھی سکن قرار دیا اس لیے کہ دن بھر کی کلفتوں کا مارا ہوا آدمی جب گھر پہنچتا ہے تو اس کی ساری کلفتیں دور ہوجاتی ہیں۔ اللہ کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نے دن کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا اور رات کو آرام و راحت کا وسیلہ قرار دیا۔ چناچہ سورة النباء میں ارشاد فرمایا گیا : و جعلنا نومکم سباتًا و جعلنا اللیل لباساً و جعلنا النھار معاشا (النبا : 11-9) ( اللہ نے تمہارے لیے نیند کو دافع کلفت بنایا اور رات کو پردہ پوش بنایا اور دن کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا) دن کے اجالے میں آدمی رزق کی تلاش اور ضروریات کے حصول میں نکلتا ہے مزدوری کرتا ہے ‘ محنت کرتا ہے ‘ ملازمت کرتا ہے ‘ زراعت کرتا ہے ‘ تجارت کرتا ہے حتیٰ کہ حکمرانی کرتا ہے۔ لیکن یہ ساری وہ ذمہ داریاں ہیں دن کے وقت جن کی ادائیگی ایک آدمی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن دن میں محنت کرنے والا ظاہر ہے لامتناہی حد تک تو محنت نہیں کرسکتا۔ ایک خاص دورانیہ کے بعد وہ تھک جاتا ہے تب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ مجھے آرام ملنا چاہیے تاکہ میں آرام کے بعد تازہ دم ہو کر پھر محنت کرنے کے قابل ہو سکوں۔ زندگی میں اگر محنت ایک لازمی عنصر ہے اور کارکردگی پر زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو پھر قوت کارکردگی کی بحالی اور دوبارہ اپنے آپ کو محنت کے قابل بنانا یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کام کرنا اس لیے پروردگار نے انسانوں پر اپنا کرم فرمایا کہ جس طرح اس نے دن کی روشنی محنت اور کام کرنے کے لیے عطا فرمائی اسی طرح محنت کے جذبے کو باقی رکھنے اور اس کی بحالی کے لیے رات پیدا فرمائی تاکہ اس میں آرام کر کے ہم دوبارہ کام کے قابل ہو سکیں۔ رات اور دن کی شناخت یا ضرورت جو انسانوں میں عام طور پر جانی پہچانی جاتی ہے وہ سورج اور چاند ہیں۔ سورج دن کا بادشاہ ہے تو چاند رات کا راجا ہے اس لیے صبح اور رات کو ذکر کرنے کے بعد سورج اور چاند کا ذکر فرمایا کہ دیکھو تمام زمینی زندگی کا دارومدا رسورج پر ہے یہ وہ تنور ہے جس کی حرارت سے زمین کا تمام کارخانہ چل رہا ہے لیکن اگر یہ سورج پردہ شب میں محجوب نہ ہوتا تو رات کو کبھی وجود نہ ملتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہم اپنی قوت کارکردگی کی بحالی کے لیے آرام کی دولت سے محروم رہتے۔ اس لیے پروردگار نے دن کو سورج کی حکمرانی عطا فرمائی۔ لیکن رات کو ہمیں چاند عطا فرمایا جس کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی روشنی اپنی نہیں بلکہ وہ سورج سے مستعار لیتا ہے اسی کا عکس اس کی روشنی کا باعث بنتا ہے اور اسی سے وہ دنیا کو روشن کرتا ہے۔ لیکن سورج سے وہ روشنی تو لیتا ہے حدت اور تمازت نہیں لیتا۔ سورج میں ایک تیزی ہے اس میں آسودگی ہے سورج گرمی پہنچاتا ہے یہ ٹھنڈک بانٹتا ہے۔ اس کا حسن دل کو سکون بخشتا ہے اور اس کی رعنائی آنکھوں کو نور عطا کرتی ہے۔ بڑے اس کے حسن سے محظوظ ہوتے اور بچے اس کو کھلونا سمجھ کے کھیلتے ہیں اور اس کی یہ آسودگی دینے والی روشنی ہمارے آرام میں خلل انداز نہیں ہوتی۔ پھر ان دونوں کو اللہ نے اس طرح پیدا فرمایا اور اس طرح ڈیوٹی پر لگا رکھا ہے کہ دونوں اپنے اپنے مدار میں محو سفر ہیں کبھی ان میں آج تک تصادم نہیں ہوا۔ دونوں زمین اور اہل زمین کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں لیکن اپنے اپنے فرض کی ادائیگی میں کبھی ان میں تخلف نہیں ہوا اور مزید یہ کہ یہ اپنی مرضی کے مختار نہیں ہیں کہ جب چاہیں چمکیں اور جب چاہیں نہ چمکیں اور اپنی حرکت و رفتار میں جب چاہیں تبدیلی کرلیں۔ سورة یٰسین میں پروردگار فرماتے ہیں کہ ” ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں کیا مجال ہے کہ وہ اس میں کمی بیشی کرسکے “۔ مزید فرمایا کہ سورج کی یہ مجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات کے بس میں ہے کہ وہ دن سے آگے نکل جائے۔ ہر ایک اپنے اپنے مدار میں محو پرواز ہے۔ یعنی جس طرح زمین کی ایک ایک چیز اللہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی اور اس کے احکام کی پابند رہ کر اپنے فرائض ادا کرنے پر مجبور ہے اسی طرح آسمان کے تمام چھوٹے بڑے کرے ان کو اللہ نے جس حساب سے پیدا فرمایا ہے اور جو کچھ ان پر فرائض عائد کیے گئے ہیں وہ ان میں کبھی پس و پیش نہیں کرسکتے۔ اور دوسرا مفہوم اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو ایک حساب کے لیے پیدا فرمایا ہے ہم چاند سے بھی اپنا حساب معلوم کرتے ہیں اور سورج سے بھی۔ یعنی ان کے طلوع و غروب اور ان کی رفتار کا ایک خاص حساب مقرر کردیا گیا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں ‘ مہینوں ‘ گھنٹوں کا بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں کا حساب باآسانی لگا سکتا ہے۔ اربوں سال سے یہ کرے آسمان پر چمک رہے ہیں اور انسان ان سے اپنے حساب کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اتنے اربوں سالوں سے کبھی ان کی رفتار میں معمولی سا تغیر بھی پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہماری تمام جنتریاں اور ہمارے تمام کیلنڈر غلط ہوجاتے۔ یہاں ایک بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ ہمارے یہاں دو طرح کے حساب رائج ہیں۔ ایک کو ہم عیسوی کہتے ہیں اور دوسرے کو ہجری۔ عیسوی حساب سورج سے متعلق ہے یعنی یہ شمسی تقویم ہے جس سے زیادہ تر دنیا کا نظام چلتا ہے اس کو عام طور پر انگریزی یا مغربی حساب کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ اس کی نسبت عیسوی کے لفظ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے تو عیسیٰ (علیہ السلام) صرف عیسائیوں کے نہیں بلکہ وہ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے بھی واجب الاحترام ہیں۔ ان کی طرف منسوب کوئی حساب بھی غیر مسلم حساب نہیں کہا جاسکتا وہ بھی ہمارا طریق حساب ہے ہم اس کو بھی استعمال کرتے ہیں اور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرا حساب قمری ہے یعنی اس کا تعلق چاند سے ہے لیکن اس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا رشتہ اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ گہرا ہے۔ تقسیم یہ ہے کہ معاملات کے لیے تو شمسی حساب کو پیش نظر رکھنا چاہیے اس سے آسانی رہتی ہے لیکن جہاں تک عبادات کا تعلق ہے اس کا تعلق قمری یعنی ہجری سن سے ہونا چاہیے کیونکہ عبادات میں یہی طریقہ مناسب ہے یعنی یہ معلوم کرنا کہ رمضان کب ہوگا ‘ حج کے ایام کون سے ہیں ‘ عیدیں کب ہوں گی ان کا تعلق قمری حساب سے ہے ‘ شمسی سے اگر ہو تو دشواری کا باعث ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں یہ دونوں حساب کے سلسلے جاری ہیں ایک کو معاملات کے لیے اور دوسرے کو عبادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ چونکہ سن ہجری کا تعلق آنحضرت ﷺ سے ہے اور پھر عبادات اور اسلامی تاریخ کا دارومدار بھی زیادہ تر اسی حساب پر ہے اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو قائم اور باقی رکھیں۔ اس قمری حساب کو بالکل نظر انداز اور محو کردینا گناہ عظیم ہے جس سے اس امت کو بچنا چاہیے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ رات اور دن کا یہ نظام ‘ سورج اور چاند کی گردش اور اہل زمین کے معاملات میں ان کی فرائض کی بجاآوری میں یکسانی اور حساب میں ان کی حرکت اور گردش کی پابندی اور ایسی ہی اور بہت ساری حکمتیں جو ہماری نگاہوں سے مخفی ہیں ان میں کبھی تخلف کا نہ ہونا اور کبھی کسی قباحت کا در نہ آنا یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ سورج اور چاند میں کوئی اپنی ذاتی خوبی ہے بلکہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ منصوبہ بندی اس خداوند ذوالجلال کی ہے جو عزیز بھی ہے اور علیم بھی۔ عزیز کا معنی ہے سب سے بلند اور سب پر غالب اور علیم کا معنی ہے ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا ‘ ہر ضرورت کو جاننے والا ‘ ہر ایک کی قسمت اور مستقبل کو پہچاننے والا اور ہر چیز کی بےپایاں وسعتوں کا علم رکھنے والا۔ وہ ذات چونکہ سب سے بلند اور سب پر غالب ہے اس لیے سورج اپنی تمام تر عظمت اور اپنی تمام تر بےپناہی کے باوجود اس کے حکم سے سرتابی کبھی نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی رفتار اور حرکت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا اسی طرح چاند پوری طرح اس کے احکام کی گرفت میں ہے اور زمین اپنی قوت روئیدگی میں کبھی تخلف نہیں کرسکتی۔ اس دنیا کی ہر چیز کو جہاں جہاں اور جس جس کام پر لگا دیا گیا ہے اس میں کمی بیشی کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر کہیں کوئی کمی بیشی یا خرابی پیدا ہوجائے تو کائنات کی بےپناہ وسعتوں میں اندازہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کہاں خرابی پیدا ہوئی ہے۔ فرمایا کہ تمہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف عزیز ہی نہیں علیم بھی ہے۔ ایک ایک چیز کی کیفیت اس کی نگاہوں میں ہے اس لیے کہیں اگر کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو وہ اس کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہتی۔ سورج اور چاند اور زمین پر تمام چھوٹی بڑی نعمتوں کو اس طرح اللہ کے احکام کی گرفت میں دکھانے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز ایک ہی پروردگار کے احکام میں جکڑی ہوئی ہے تو پھر سورج اور چاند کو دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے کا کیا جواز ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے ارشاد فرمایا : لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا لِلّٰہِ الذی خلقھن (تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ‘ بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو ‘ جس نے ان کو پیدا کیا) (حم سجدہ : 37) اس لیے کہ سجدہ کا مستحق تو وہ ہے جو سب کا خالق ہے اس کی موجودگی میں مخلوق کو سجدہ کرنا اس سے بڑی جہالت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی تو یہ سورج اور چاند جب اللہ کی مخلوق ہیں اور پھر وہ اپنی مرضی کے مختار بھی نہیں وہ ہم سے بڑھ کر اللہ کے احکام کی گرفت میں ہیں وہ اپنے آپ کو اس گرفت سے نکالنے پر قادر نہیں تو تمہاری قسمتیں بنانے یا تمہیں مصیبتوں سے نکالنے میں تمہیں کیا مدد دے سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ وہ تو تمہاری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور تم ان کے مخدوم ہو۔ صبح سے شام تک سورج اپنی روشنی سے تمہاری خدمت انجام دیتا ہے اور چاند رات بھر تمہاری خدمت میں مصروف رہتا ہے کس قدر نادانی کی بات ہے کہ ایک مخدوم اٹھ کر اپنے خادم کو سجدہ کرنے لگے ‘ اس کی خدمت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوجائے اگر دنیا میں کوئی بادشاہ یا کوئی حکمران اپنے چاکروں اور اپنے درباریوں سے اس طرح کی حرکت کرے تو یقین کرلیا جائے گا کہ اس شخص کا دماغ خراب ہوگیا ہے تو اے دنیا کے مشرکو ! تمہیں آخر یہ بالکل سادہ سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی اس لیے ان آیات میں ان تمام چھوٹے بڑے کروں کا ذکر کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ تم ان کے مخدوم ہو اس لیے مخدوم بن کے رہو لیکن اس ذات کے سامنے جھکو جس ذات نے ان بڑے بڑے کروں کو تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے ‘ جس کی قدرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ‘ جس کی عظمتوں کی کوئی انتہاء نہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں ستاروں کے وجود اور اہل زمین کے لیے ان کی خدمات سے توحید پر استدلال کیا جا رہا ہے کیونکہ مشرکین عرب ستاروں کو بھی اللہ کا شریک بناتے تھے اور ان کے اثرات کو مستقل بالذات سمجھ کر ان کے سامنے دست سوال پھیلاتے تھے اور دنیا کے بعض حصوں میں تو انھیں دیوتا کی حیثیت حاصل تھی اور بعض مشرک گروہ ان کو اللہ کا اوتار قرار دیتے تھے اس لیے ایسے تمام مشرکانہ امور کی تردید کے لیے ستاروں کی خدمات کی طرف توجہ دلا کر انسانی اصلاح کا اسے ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ چناچہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تو وہ ذات ہے جس نے ستاروں کو تمہارے لیے پیدا کیا اس میں سب سے پہلی بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح تم اللہ کی مخلوق ہو اور مخلوق ہونے کی وجہ سے اللہ کے شریک نہیں ہوسکتے بلکہ تم اس کے بندے ہو وہ تمہارا معبود ہے اور تمہاری ہر طرح کی عبادتوں اور اطاعتوں کا وہی مستحق ہے اسی طرح ستارے بھی مخلوق ہونے کی وجہ سے اللہ کے بندے ہیں وہ اپنے فرائض میں آزاد نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کی پابندی میں مجبور محض ہیں ‘ وہ اس سے سرتابی کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ آسمان کی وسعتوں میں جو خدمت ان کے سپرد کی گئی ہے پوری مستعدی سے اسے انجام دینے کے پابند ہیں۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ انھیں ہم نے تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیا گویا وہ تمہارے خادم ہیں اور تم ان کے مخدوم ہو۔ تم ان کو آسمان کی بلندیوں پر دیکھتے ہو اور خود زمین کی پستیوں کے مکین ہو ‘ شاید اس وجہ سے تمہیں یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ ان کی بلندیاں شاید ان کی سربلندی کا باعث ہوں اور ممکن ہے وہ اپنے اندر کوئی غیر معمولی قوتیں بھی رکھتے ہوں حالانکہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں انھیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری خدمت کے لیے بنایا ہے ان کا رات بھر ٹمٹمانا ‘ ان کا روشنی دینا وہ تمہارے لیے ہے یہ سب کچھ وہ تمہارے لیے اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں کر رہے ہیں۔ اسی خدمت کی مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ تم خوب جانتے ہو کہ جب تم بر و بحر کی تاریکیوں میں سفر کرتے ہو اور صحرائوں کی وسعتوں میں تمہارے پاس سمت سفر کے تعین کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور سمندر کی بےکراں پہنائیوں میں کوئی صورت نہیں ہوتی جس سے تمہیں یہ معلوم ہو سکے کہ تمہیں کدھر جانا ہے اور تمہاری منزل کدھر ہے لیکن یہ ستارے ہیں جو تمہاری سمت سفر اور منزل کو متعین کرنے اور راستے کی شناخت میں تمہاری مدد کرتے ہیں تم ان سے اس طرح راستہ جانتے ہو جس طرح راستے کی برجیوں سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے اور تم ان سے سمت سفر متعین کرنے میں اس طرح مدد لیتے ہو جس طرح سمندروں کے دید بانوں میں جلتے ہوئے چراغ بحری جہازوں کو سمت سفر بتاتے ہیں یہ ستارے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے راستے کی برجیاں اور یا مینارہ نور۔ عجیب بات ہے کہ جس اللہ کی مخلوق کی یہ حیثیت ہو کہ وہ رات بھر چمک چمک کر تھک جائیں لیکن محض تمہاری خدمت کے لیے آنکھ نہ جھپکیں تم بجائے اس کے کہ انھیں اللہ کی طرف سے متعین کردہ خادم سمجھو اور اللہ کی اس با پایاں عنایت کا شکر بجا لائو انہی کو اللہ کی صفات میں شریک بنا کر پوجا کرنے لگتے ہو اور ان سے اپنی مشکلوں میں مدد کے طالب ہوتے ہو۔ کسی مخدوم کا اپنے خادم سے یہ طرز عمل کسی حوالے سے بھی صحت مندانہ طرز عمل نہیں کہلا سکتا بلکہ دنیائے فکر میں اسے نہایت فروتنی کی علامت اور خست کی انتہاء سمجھا جاتا ہے۔ اگر تدبر سے کام لیا جائے تو اس آیت کریمہ کے بین السطور میں ایک اور حقیقت بھی جھلکتی دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ ستارے آسمان کی وسعتوں میں رواں دواں ہیں اور انسان زمین کی پستیوں میں رہتا ہے اور زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ ہمارے حدود علم سے ماورا ہے۔ بظاہر آسمانی مخلوق اور زمینی مخلوق میں کوئی نسبت ہے اور نہ کوئی رابطہ لیکن اس کے باوجود ستارے راستے بتانے اور منزل کی خبر دینے کی خدمت اہل آسمان کے لیے نہیں بلکہ اہل زمین کے لیے انجام دے رہے ہیں۔ اوپر کی مخلوق نیچے کی مخلوق کو کبھی دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی اور تاریکیوں میں بسنے والے نور کے جھرمٹ میں رہنے والوں سے کبھی کوئی رشتہ قائم کرنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ اگر یہ نورانی مخلوق اپنے تفوق اور اپنی نورانیت کے احساس میں آزاد ہوتی تو وہ کبھی اہل زمین کی کسی خدمت کے لیے سوچنے کی زحمت بھی نہ اٹھاتی۔ لیکن ان کا اہل زمین کی یہ خدمت انجام دینا کیا اس بات کی خبر نہیں دیتا کہ وہ یقینا کسی کے حکم کے پابند ہیں اور وہ حکم دینے والا وہ ہے جو بیک وقت زمین اور آسمان کا حاکم ہے اور جس کو زمین اور آسمان دونوں کی مصلحتیں ایک ساتھ عزیز ہیں۔ زمینوں اور آسمانوں میں یقینا پستیوں اور بلندیوں کا فرق ہے لیکن اس حاکم کی حکمت میں اس فرق کا کوئی تصور نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ کس مخلوق سے کس طرح اور کون سا کام لینا ہے۔ اگر زمین کا مالک کوئی اور ہوتا اور آسمان کا حاکم کوئی اور تو ستارے کیا آسمان کی کوئی مخلوق بھی زمین اور اہل زمین کے حال پر کبھی توجہ نہ کرتی لیکن آسمان کی تمام مخلوقات اور وہاں کے تمام ستارے اور سیارے جس طرح انسانوں کی خدمت میں لگا دیئے گئے ہیں یہ یقینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں کا خدا اور ان دونوں کا مالک ایک ہے۔ یہاں اسی دلیل کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے اور قرآن کریم نے اسے ایک اور جگہ کھول کر بھی بیان فرمایا ہے : وَھُوَ الَّذِی فِی السَّمَآئِ الٰہٌ وَ فِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ (اور وہی ذات ہے ‘ جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے) (الزخرف : 84) اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں جو جانتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں۔ اس میں دو باتیں فرمائی جا رہی ہیں ایک یہ کہ دانے اور گٹھلی کا پھاڑنا زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالنا۔ تاریکی سے صبح کا برآمد کرنا اور سورج اور چاند کو ایک حساب سے اور ایک خدمت کے لیے پیدا کرنا اور اسی طرح ستاروں کو اہل زمین کی خدمت کے لیے تخلیق فرمانا یہ سب نشانیاں ہیں جس سے تم اپنے خالق کو پہچان سکتے ہو کیونکہ نشانی دلیل ہوتی ہے اس کے لیے جس کی وہ نشانی ہوتی ہے اس سے وہ پہچانا جاتا ہے اور اس کے بارے میں وہ سب کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے جس پر نشانی دلالت کرتی ہے ان میں سے ایک ایک چیز خود بول رہی ہے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا ہے ہم کس کے احکام کی پابندی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور وہ کون قادر مطلق ہے جس کی قدرت کے سامنے تمام چھوٹے بڑے کرّے بےبس ہیں۔ یہ ایسی وسیع اور روشن نشانیاں ہیں جن کی موجودگی میں کسی اور نشانی کا مطالبہ ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا اگر کوئی آدمی اللہ کی معرفت کا طالب ہے اور وہ اس کی صفات کو جاننا چاہتا ہے تو اس کے لیے تو یہ نشانیاں بس کرتی ہیں لیکن ان تمام نشانیوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی بار بار پیغمبر سے اور نشانی لانے کا مطالبہ کرتا ہے جیسے کہ مشرکین مکہ کرتے تھے کہ ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائو یعنی ایسا کوئی معجزہ دکھائو جس سے ہمیں اللہ کی توحید ‘ آپ کی رسالت اور آخرت کا یقین آجائے۔ انھیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسی واضح نشانیاں بھی تمہیں راہ راست نہیں دکھا سکیں تو کوئی اور نشانی تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکے گی۔ آیت کے آخری لفظ میں مشرکین مکہ کا اپنی ضد پر اصرار اور ان کی ہٹ دھرمی کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ یہ لوگ نشانیاں رکھتے ہوئے بھی بار بار نشانیوں کا جو مطالبہ کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم کے دشمن ہیں۔ کسی چیز کو جاننا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آدمی اپنے اندر اس کی طلب پیدا کرے اور اس کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھے لیکن جو شخص ان دونوں چیزوں سے نابلد ہو اس کے سامنے بڑی سے بڑی دلیل بھی بےکار ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے بیان کی ہیں جو جانتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں یعنی یا تو وہ پہلے سے علم کی وادی میں موجود ہیں اور جب بھی ان کے پاس علم کی کوئی بات آتی ہے وہ آگے بڑھ کر اسے قبول کرتے ہیں اور یا پھر یہ ہے کہ علم کی طلب ان کے اندر ہے ان کی خواہش ہے کہ جس بات کو وہ نہیں جانتے انھیں وہ بات بتلائی جائے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب یہ نشانیاں بیان کی جاتی ہیں تو وہ اس سے فوراً فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مشرکین مکہ چونکہ اس بنیادی صفت سے عاری ہیں اور انھوں نے اپنی بےبصیرتی کے باعث اپنے آپ کو ہٹ دھرمی کا مریض بنا لیا ہے اس لیے ان لوگوں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ یہاں یَعْلَمُونْ کا لفظ دونوں معنوں پر دلالت کر رہا ہے جس کا میں نے اس وضاحت میں ذکر کردیا ہے کیونکہ فعل اظہار فعل پر بھی دلالت کرتا ہے اور ارادہ فعل پر بھی اس لیے یَعْلَمُونْ کا معنی ہوگا وہ لوگ جو جانتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کے لوگ ہیں جو ہدایت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر کسی شخص میں ان دونوں صفات میں سے کوئی صفت بھی نہ ہو تو وہ بڑی سے بڑی رہنمائی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ‘ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ تاریک راستے میں جلتی ہوئی شمع سے دو طرح کے لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ایک وہ جو آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو کھولنے کا ارادہ اور نیت رکھتے ہیں اور جس نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ آنکھیں نہیں کھولے گا تو اس کے لیے چاہے آپ کتنی شمعیں جلا دیں وہ اس روشنی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ یقینا کسی کھائی میں گر کر ہلاک ہوجائے گا۔ اگلی آیت کریمہ میں انسان کی اپنی ذات اس کے تخلیقی عمل اور اس پر اللہ کی عنایات کے تذکرے سے اللہ کی ذات اور اس کی توحید پر استدلال کیا جا رہا ہے۔
Top