Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ (کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا) ہے۔ وہی جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جان دار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
(95 ۔ 97) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید اور نبوت کا ذکر فرمایا تھا اب اس ڈیڑھ رکوع میں ان عجائبات موجودات دنیا کا ذکر فرمایا ہے جن کے پیدا کرنے میں وہ وحدہ لاشریک منفرد ہے مقصد ان موجودات کے ذکر فرمانے سے یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں دوسخت عیب جو تھے اس کی اصلاح ہوجائے بڑا عیب تو بت پرستی کا تھا اس کی اصلاح موجودات پر غور کرنے سے یوں ہوسکتی ہے کہ دیکھنے میں تو وہ موجودات روز مرہ کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں لیکن ہر شے کے پیدا کرنے میں وہ قدرت اور حکمت نہیں حاصل ہوسکتی مثلا علاوہ روایات شرعی کے عقل سے بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ زمین پانی پر پھیلائی گئی ہے کیونکہ جہاں زمین کو کھودا جاتا ہے وہاں پانی نکلتا ہے اب ان بادشاہوں اولوالعزم سے جو ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو قبضہ میں لانے کے لیے اپنی اور اپنی فوج کی ہزارہا آدمیوں کی جانیں کھوتے ہیں اور یہ کہا جاوے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے منفرد اپنی ذات سے پانی پر زمین بچھادی ہے۔ تم کئی بادشاہ مل کر اور اپنی فوج ساتھ لیا کرو سمندر پر زمین بچھا دو کہ دنیا سے کئی حصہ زیادہ ملک کے بادشاہ بن جائیں گے انار کی یا آم کی کچھ گٹھلیاں پرانی سوکھی ہوئی لے کر دنیا بھر کے حکیموں سے پوچھا جائے کہ ان سب گھٹلیوں کا ایک ساسوکھی لکڑی کا مزہ ہے پھر ذراعقل تو لگاؤ کہ ایک گٹھلی سے میٹھا انار اور آم اور دوسرے سے کھٹا کیونکہ پیدا ہوتا ہے ان دونوں سوالوں کے جواب میں دونوں فریق سواحیران رہنے کے کچھ جواب نہ دین گے اس سے معلوم ہوا کہ تمام مخلوقات میں سے کوئی فرد بشر اس وحدہ لاشریک کی قدرت کا شریک نہیں پھر معبود بنے کا شریک کوئی کس استحقاق اور برتے پر بن کستا ہے دوسرا عیب یہ تھا کہ وہ مر کر پھر جینے کے حکم کو جب سنتے تھے تو کبھی کہتے تھے ھذاشیء عجیب اور کبھی کہتے تھے من یحییٰ العظام وھی رمیم (32۔ 178) موجودات پر غور کرنے سے اس عیب کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ جب منی جیسی رقیق چیز سے ایسی سخت ہڈیاں بنیں اور باوجود سر و تر مزاج منی کے اس طرح مختلف مزاج کے پتلے اور جسیم تنگ جائے میں اسی منی سے بن چکے ہیں اور اندھیرے میں گھبرانے والی شیٔ روح کا تعلق اس کے جسم کے ساتھ پیٹ کے اندر اندہیرے میں ہوچکا ہے تو زمین کی مٹی سے جس میں مردوں کی مٹی مل چکی ہے جس کو چاروں کیفیتوں گرم سروتر اور خشک کا خمیر کہنا چاہئے دوبارہ جسموں کا بن جانا اور کھلے روشن میدان میں روح کا تعلق ان جسموں سے ہوجانا کیا ایسا مشکل ہے جس طرح پہلی دفعہ جسم کا بننا ورروح کا تعلق مشکل تھا نہیں نہیں ہرگز نہیں شیطان نے آسمان سے اتارے جانے کے وقت اللہ تعالیٰ سے یہ کہا تھا لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا (4۔ 188) اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت سے لے کر اب تک بت پرستی اور سب برے کام جو روئے زمین پر ہوتے ہیں شیطان اور اس کے شیاطینوں کے بہکانے سے ہوتے ہیں اور برے کاموں کے کرنے میں وہ شیطان کی اطاعت نکلتی ہے جو اچھے کاموں کے کرنے میں خدا کو زیبا تھی اسی واسطے ان آیات میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے اس کی عبادت میں لوگوں نے شیطانوں کو شریک ٹھہرا رکھا ہے حاصل یہ ہے کہ زمین میں لوہے کی کوئی چیز وبائی جاوے تو وہ خاک ہوجاتی ہے یہ اللہ کی قدرت ہے کہ بجائے خاک ہوجانے کے سوکھا دانہ اور خشک گٹھلی بوئی جاکر پھر ان میں سے سبز پیڑ نکلتا ہے اور اس پیڑ میں ایک دانہ سے بہت سے اناج کے دانے اور گٹھلی سے بہت سے میوے کے پھل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بےجان انڈے سے جاندار مرغی کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور جاندار مرغی کے پیٹ سے بےجان انڈانکلتا ہے اللہ کی یہ قدرت دیکھ کر جو لوگ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کو فرمایا کہ وہ سیدھے راستے سے پھرے ہوئے ہیں یہ ایک اور اس کی قدرت کا نمونہ ہے کہ وہ قادر مطلق رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر اس میں سے صبح کے اجالے کو نکالتا ہے تاکہ صحیح کے اجالے میں ہر ایک آدمی اپنا کام دھندا کرلے اور دن پھر کے کام دھندے سے انسان تھک جاتا ہے اس لیے اس خالق نے انسان کے آرام کے لیے رات کو پیدا کیا تاکہ رات کو انسان آرام پاکر دوسرے دن پھر کام دھندے کے قابل ہوجاوے۔ سورج اور چاند کی منزلیں اور چال اس زبردست صاحب قدرت اور صاحب علم نے اس حساب سے رکھے ہیں جس سے دن مہینہ اور سال کا حساب معلوم ہوتا ہے جس پر دین کا نماز روزہ حج زکوٰۃ کا حساب اور دنیا کے بےگنتی معاملات کا حساب منحصر ہے لوگ دین کے کاموں کا وقت ٹھہرانے کا کام سورج اور چاند سے لیتے ہیں ان کو آنحضرت ﷺ نے اللہ کے اچھے بندے فرمایا 1 ؎ آسمان پر تارے اس کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے جس سے جنگل اور دریا کے مسافروں کو اندھیرے راتوں میں سیدھا راستہ معلوم ہوجاتا ہے بخاری میں بغیر سند کے اور تفسیر عبد بن حمید میں مع معتبر سند کے قتادہ کا قول ہے کہ تارے آسمان کی زینت شیطانوں کی مار اور اندہیری رات میں مسافروں کو سیدھا راستہ معلوم ہوجانے کے لیے پیدا ہوئے 2 ؎ ہیں جس کسی نے سوا اس کے تاروں سے اور کوئی کام لیا وہ غلطی پر ہے آخر کو فرمایا کہیے سب نشانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں جن میں کچھ ہوشیاری اور جنگو کچھ سمجھ ہے جو لوگ رات دن غفلت آپ پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ان نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاسکتے اسی واسطے ایسے لوگ ان نشانیوں کے پیدا کر نیوالے کی تعظیم کو چھوڑ کر اوروں کی تعظیم میں لگے ہوئے ہیں صحیح بخاری میں زیدبن خالد جہنی ؓ کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ مینہ کا برسنا اللہ کے فضل سے جانتے ہیں وہ ایماندار ہیں اور جو لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تاروں کی تاثیر سے مینہ برسا کرتا ہے وہ کافر ہیں حاصل معنی حدیث کے یہ ہیں کہ جو لوگ تاروں میں مستقل تاثیر مینہ برسانے کے جانتے ہیں وہ مشرک ہیں کیونکہ اللہ کی قدرت میں وہ تاروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ہاں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاروں کی تاثیر کا یہ ایک تجرب ہوا ہے کہ تاروں کے خاص خاص طلوع و غروب کے وقت مینہ برستا ہے وہ لوگ مشرک تو نہیں مگر غلطی پر ضرور ہیں کیونکہ با رہا ان کا تجربہ غلط ٹھہراتا ہے اس لیے سچے ایمان دار وہی ہیں جو مینہ کا برسنا اللہ کے فضل سے جانتے ہیں اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں ان صحیح حدیثوں کے موافق قتادہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس نے سوا ان تین باتوں کے تاروں سے اور کوئی کام لیا اور یہ اعتقاد رکھا کہ تاروں میں اس کام کی مستقل تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ورنہ غلطی پر ہے سورة والصافات میں آویگا کہ جب شیاطین غیب کی باتیں سننے کو آسمان تک جاپہنچتے ہیں تو فرشتے تاروں کی روشنی میں سے شعلے لے کر ان کو مارتے ہیں قتادہ کے قول میں شیاطینوں کی مار کا یہی مطلب ہے :۔ 1 ؎ تفسیر فتح البیان ج 1 ص 855۔ 856 2 ؎ تفسیر الدرالمنثور ج 3 ص 43 و صحیح بخاری ج 1 ص 454 باب فی النجوم۔
Top