Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ برآمد کرتا ہے زندہ کو مردہ سے اور وہی برآمد کرنے والا ہے مردہ کو زندہ سے، بس وہی اللہ ہے تو تم کہا اوندھے ہوئے جاتے ہو !
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۔ ایک ایک ذرہ توحید کا شاہد ہے : ‘ْحَبِّ ’ اور ‘ نوی ’ دانے اور گٹھلی کو کہتے ہیں۔ پہلے چھوٹی چیزوں سے آیات الٰہی کے بیان کا آغاز کیا ہے، پھر کائنات کی بڑی چزوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا کہ ایک چھوٹے سے دانے اور چھوٹی سی گٹھلی پر بھی خدا کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ان کو پھاڑ کر ان کے اندر سے انکھوے نکالے، پھر ان کو پودے اور درخت بنا دے۔ یہ خدا ہی کی قددرت اور اس کی حکمت ہے کہ وہ ایک ایک بیج اور ایک ایک گٹھلی کے اندر صلاحیتیں ودیعت فرماتا ہے، پھر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے زمین، آسمان، ابر، ہوا، گرمی اور سردی، خزاں اور بہار سب کو امر فرماتا ہے کہ سب مل کر اس کی پرورش میں اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ گویا اس زمین میں نشوونما پانے والا ایک ایک دانہ اپنے وجود سے اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اسی کے تصرف سے وہ وجود میں آیا ہے جس کے تصرف میں یہ پوری کائنات ہے۔ اگر اس کائنات کی خدائی مختلف خداؤں اور دیوتاؤں میں بٹی ہوئی ہوتی اور وہ سب اپنے اپنے دائروں اور علاقوں میں خود مختار ہوتے تو اس دنیا کا نظام چلنا تو الگ رہا رائی کا ایک دانہ بھی اپنی صلاحیتیں اجاگر نہیں کرسکتا تھا۔ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ ، بعینہ یہی ٹکڑا، معمولی فرق کے ساتھ، آل عمران کی آیت 27 میں گزر چکا ہے۔ وہاں ہم بقدر ضرورت اس کی شرح کرچکے ہیں۔ یہ بےجان چیزوں سے زندگی کے اظہار اور پھر زندگی کے اوپر موت اور فنا کے طاری ہونے کی ایک جامع تعبیر ہے جس کا مشاہدہ ہم اس کائنات کے ہر گوشے میں برابر کر رہے ہیں۔ آم کی بےجان گٹھلی اور گیہوں کے بےجان دانہ سے ہرا بھرا درخت اور لہلہاتا ہوا پودا پیدا ہوجاتا ہے اور پھر اسی سبز و شاداب درخت اور لہلہاتے ہوئے پودے پر زردی، خشکی اور مردنی طاری ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک دن وہ ختم ہوجاتا ہے یہی مشاہدہ ہم انسانوں اور حیوانوں میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوموں اور ملتوں کے اندر بھی موت اور زندگی، عروج اور زوال کی یہی داستان برابر دہرائی جا رہی ہے۔ ایک قوم پردہ عدم سے نکلتی ہے ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور پھر وہی قوم ایک دن آتا ہے کہ پردہ عدم میں جا چھپتی ہے۔ موت اور زندگی کے اس قانون سے کسی کے لیے مفر نہیں۔ اگر خدا کے سوا کسی اور کا بھی اس کائنات میں مالکانہ و خود مختارانہ تصرف ہے تو کسی ایک ہی گوشہ میں وہ اس قانون کو باطل کیوں نہیں کردیتا اور اگر خدا سرے سے ہے ہی نہی بلکہ یہ سب کچھ مجرد مادے یا کسی اندھی بہری طاقت کا بروز ہے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بروز قائم و دائم رہے، نہ اس میں کبھی انقطاع ہو، نہ اس کے رخ میں کوئی تبدیلی واقع ہو، نہ اس پر کوئی تغیر طاری ہو۔ زبان کا ایک نکتہ : یہاں زبان کا ایک نکتہ بھی قابل لحاظ ہے۔ پہلے تو فرمایا يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ لیکن دوسرے ٹکڑے میں اسلوب بدل کر فرمایا مُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ ، مردہ سے زندہ کو نکالنے کے لیے فعل استعمال فرمایا جو صرف تصویر حال کا فائدہ دیتا ہے لیکن زندہ سے مردہ کو برآمد کرنے کے لیے فاعل کا صیغہ استعمال فرمایا جس کے اندر عزم اور فیصلہ کا مفہوم بھی مضمر ہوتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ ہماری سمجھ میں یہ آئی ہے کہ زندگی حاصل ہوجانے کے بعد کوئی جاندار بھی اپنی زندگی موت کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہوتا لیکن قدرت کا قانون ایسا اٹل ہے کہ وہ بہرحال اس کو موت میں تبدیل کر ہی کے رہتا ہے۔ یہ نہایت واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا کے سوا اس کائنات میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ اگر ہے کسی کا تو وہ اپنی محبوب زندگی کو موت کے پنجہ سے کیوں نہیں بچالیتا ؟ یہی مضمون سورة واقعہ میں یوں بیان ہوا ہے، فلولا ان کنتم غیر مدینین ترجعونہا ان کنتم صدقین، اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو تو اپنی حلق میں آئی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لوٹا لیتے، اگر تم سچے ہو۔ عام طور پر لوگوں نے اس آیت کو انڈے اور مرغی اور مرغی اور انڈے کی حکایت تک محدود رکھا ہے لیکن اوپر کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ تعبیر ہے قدرت کے ان قوانین کی جو اس نے بےجان چیزوں کے اندر زندگی کے اور جاندار چیزوں کے اندر موت کے ودیعت کیے ہیں، جن کو صرف قدرت ہی بروئے کار لاتی ہے اور جن کی گرفت سے کوئی آزاد نہیں ہے۔ ۭذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ آگے فرمایا ہے (وہی اللہ تمہارا رب ہے) اگر اس جملے کی تفسیر اس دوسرے جملے کی روشنی میں کی جائے تو ماننا پڑے گا کہ یہاں خبر محذوف ہے اور اگر اسی کو پورا جملہ مانا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ سب اللہ ہی کا کرشمہ قدت ہے تو تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو ؟ یہ وضح رہے کہ اہل عرب اللہ کو نہ صرف مانتے تھے بلکہ ہر چیز کا خالق بھی اسی کو مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شرک میں بھی مبتلا تھے اس لیے فرمایا کہ فکر سلیم کے لیے سیدھی راہ تو یہ ہے کہ جب یہ سارا تصرف اللہ ہی کا ہے تو بندہ صرف اسی کی عبادت و اطاعت کرے لیکن تمہاری عقل کہاں اوندھی ہوئی جاتی ہے کہ ایک قدم صحیح اٹھا کر پھر دوسرے رخ پر مڑ جاتے ہو اور پائی ہوئی حقیقت کو گم کردیتے ہو۔ یہ آیت اگرچہ واضح طور پر تو بیان توحید ہی کے سیاق میں ہے لیکن اس میں ایک لطیف اشارہ معاد کی طرف بھی ہوگیا۔ اس لیے کہ جب ہم ہر قدم پر مردہ سے زندہ کو ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو اس بات پر تعجب کی کیا وجہ ہے کہ مرجانے اور گل سڑ جانے کے بعد خدا ہمیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا ؟ گٹھلی اور دانہ زمین میں سڑ گل کر اگر از سرِ نو زندہ ہوسکتے ہیں تو ہم زمین میں دفن ہوجانے کے بعد آخر اللہ کے حکم سے دوبارہ کیوں نہیں زندہ ہوسکتے ؟
Top