Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
فَالِقُ
: چیرنے والا
الْحَبِّ
: دانہ
وَالنَّوٰى
: اور گٹھلی
يُخْرِجُ
: نکالتا ہے
الْحَيَّ
: زندہ
مِنَ
: سے
الْمَيِّتِ
: مردہ
وَمُخْرِجُ
: اور نکالنے والا ہے
الْمَيِّتِ
: مردہ
مِنَ
: سے
الْحَيِّ
: زندہ
ذٰلِكُمُ
: یہ ہے تمہارا
اللّٰهُ
: اللہ
فَاَنّٰى
: پس کہاں
تُؤْفَكُوْنَ
: تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑ کر نکالتا ہے دانے اور گھٹلیوں سے نکالتا ہے وہ جاندار چیز کو بےجان سے۔ اور نکالتا ہے وہ مردہ کو زندہ سے یہی ہے اللہ تعالیٰ ‘ تم کدھر پھرے جاتے ہو
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے توحید کے اثبات وار شرک کی تردید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا۔ پھر دیگر اٹھارہ انبیاء کا ذکر کر کے توحید کے مئلے کی وضاحت فرمائی اس کے ساتھ منصب رسالت اور انبیاء کے فرائض کا ذکر ہوا ‘ منکرین رسالت کا رد ہوا اور تورات کو بطور مثال پیش کیا ۔ پھر آخر میں قرآن حکیم جیسی بابرکت کتاب کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے ج اللہ پر افتراء باندھتا ہے اور جو اپنی طرف وحی آنے کا جھوٹا دعویٰ کرتا یا جو شخص قرآن پاک کی مثل لانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسے ظالموں کی موت کے وقت سختیوں کا بھی ذکر ہوا اور ان کے لئے بری جزاء کو بیان کیا گیا۔ پھر انسان کو سمجھایا گیا کہ تمہیں اللہ کے پاس اکیلے حاضر ہونا ہے ‘ یہاں کی جمع کی گئی مال و دولت وہاں کچھ کام نہ آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارشی موجود ہوں گے کہ جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہیں چھڑا لیں گے۔ افضل حکمت ان آیات کا تعلق بھی سابقہ مضمون اثبات توحید اور رد شرک کے ساتھ ہی ہے تاہم یہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہ بات عقلی دلائل کے ساتھ سمجھائی ہے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا ذکر کر کے انسان کی توجہ اس طرف دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے سے اس کی توحید سمجھ میں آجائے گی حکماء کہتے ہیں کہ حکمت حقیقت میں یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے افعال کو سمجھنے لگے اور حکمت کا مطلب یہ ہے۔ معرفۃ الحقائق بقدر طاقۃ البشریۃ انسان اپنی طاقت کے مطابق حقائق کو سمجھنے لگے۔ یہ حکمت کا افضل حصہ ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے رائس الحکمہ مخافۃ اللہ حکمت کی جڑ بنیاد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ اور خدا کی ذات ‘ صفات اور اس کے افعال کو سمجھنا افضل حکمت ہے۔ اسی واسطے بزرگان دین کی دعا میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں اللھم ارنا الاشیاء کما ھی اے اللہ ! ہمیں اشیاء کو دکھا دے جیسا کہ وہ واقع کے اندر ہیں۔ انسان کی غلطیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقائق کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتا۔ کسی چیز کا صحیح علم ہی حکمت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے افضل حکمت ہے۔ دانہ اور گٹھلی بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ فالق الحب والنویٰ بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانے اور گٹھلی کو۔ اناج اور پھلوں کی پیداوار کے لئے عام طور پر دو چیزیں بطور بیج استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک دانہ اور دوسری گٹھلی ‘ اناج کی پیداوار کے لئے گندم ‘ جو ‘ چاول ‘ مکئی ‘ باجرہ وغیرہ کے دانے ہی بطور بیج زمین میں ڈالے جاتے ہیں اور اس بیج سے یہی دانے بیشمار تعدا دمیں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح پھلوں کی پیداوار کے لئے آم ‘ جامن ‘ آڑو وغیرہ کی گٹھلی لگائی جاتی ہے تو تناور درخت پیدا ہوتے ہیں جن سے متعلقہ پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو کمال علم اور کمال حکمت کے ساتھ پیدا کر کے انسانوں کی خوراک کا بندوبست کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ ایک ایک دانے اور گٹھلی سے سینکڑوں اور ہزاروں دانے اور گھٹلیاں پیدا کرنے والا وہی وحدہ لا شریک ہے تو اس کو چھوڑ کر تم کدھر بھٹک رہے ہو۔ جو اللہ انسان کی خوراک کے لئے اناج ‘ پھل اور سبزیاں پیدا کرتا ہے ‘ عبادت کے لائق بھی وہی ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ کی اسی صفت پر غور کرلے تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ مشکل کشائی اور حاجت براری بھی وہی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی طرف رجو ع کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی یہ ایک دلیل قائم کی ہے۔ جڑ اور شاخ جب دانہ یا گٹھلی کچھ عرصہ زمین کے اندر گزارنے کے بعد پھٹی ہے تو اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ اس کا ایک سرا اوپر کی طرف نکلتا ہے جو تنا اور شاخ بنتا ہے اور دوسرا حصہ نیچے کی طرف زمین کے اندر جاتا ہے جو اس پودے یا درخت کی جڑ بنتا ہے۔ زمین سے اوپر کی طرف نکلنے والی پتی نہایت ہی نرم و نازک ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے سخت زمین کو پھاڑ کر اس کے لئے راستہ بناتا ہے۔ اسی طرح نیچے جانے والا حصہ دور دور تک زمین میں پھیل جاتا ہے جو ایک طرف پودے یا درخت کے لئے زمین سے خوراک حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف اسے گرنے سے بچاتا ہے کیا یہ سب کچھ خود بخود پودے کے اپنے مزاج سے ہو رہا ہے یا اس کو کرنے والی کوئی ذات موجود ہے ؟ انسان تھوڑا سا بھی غور کرے گا تو سمجھ جائے گا کہ یہ سب کچھ کرنے والا خداوند تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل سورة عبس میں بیان فرمائی کہ انسان اپنے کھانے کی طرف غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کے پیدا کرنے میں خداوند تعالیٰ کی قدرت کا کتنا بڑا کرشمہ کارفرما ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ‘ اے انسان ! ذرا غور کر انا صببنا الماء صبا “ ہم نے کس طرح بارش کے ذریعے پانی کا انتظام کیا ” ثم شققنا الارض شقا “ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور پھر اس میں سے اناج اور پھل پیدا کئے۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے اس کی شاخ نکالتا ہے اور پھر وہ اناج کا پودا یا پھل کا درخت بن جاتا ہے۔ مختلف مزاج ظاہر طور پر مختلف اقسام کا غلہ اور پھل اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے رنگ و بو اور ذائقہ میں مختلف ہوتا ہے اسی طرح باطنی طور پر ان کے مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ بعض پھل ایک مزاج کے ہوتے ہیں اور بعض میں کئی کئی قسم کے مزاج اکٹھے پائے جاتے ہیں ‘ حکماء کہتے ہیں کہ ترنج کے پھل میں چاروں مزاج یعنی سرد ‘ گرم ‘ خشک اور تربیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ دانے ‘ مغز ‘ چھلکے اور گورے کے مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ انگور میں بھی مختلف مزاج کی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی گٹھلی اور چھلکا سرد خشک ہے۔ جب کہ مغز اور پانی گرم تر ہے۔ کیا یہ اس کی اپنی طبیعت کا کام ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ یہ خاصیتیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ وہ وحدہ لاء شریک ہے۔ نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی صفات میں کوئی ساجھی ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ طبیب کسی آدمی کے خلاف ہوگئے وہ اسے ختم کرنا چاہتے تھے مگر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ آخر انہوں نے شراب میں افیون کی بہت زیادہ مقدار ملا کر اسے پلا دی اور ایک کوٹھڑی میں ڈال دیا کہ اب یہ مرجائے گا۔ خدا کی قدرت اس کوٹھڑی میں کہیں سے ایک بڑا اژدھا داخل ہوگیا۔ جس نے اس شخص کو ڈس لیا۔ پہلے اس کے جسم میں افیون کی سردخشک تاثیر تھی ‘ اب سانپ کے زہر کی تاثیر سخت گرم بھی داخل ہوگئی۔ چناچہ جب سرد اور گرم مزاج اکھٹے ہوگئے تو دونوں کا اثر زائل ہوگیا اور آدمی بچ گیا۔ نہ اس پر افیون نے اثر کیا اور نہ سانپ کے زہر نے ۔ یہ متضاد مزاجوں کا کرشمہ تھا زندہ اور مردہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی سے پودے کو نکالتا ہے اور دوسری یہ کہ یخرج الحی من المیت و مخرج المیت من الحی وہ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ مردہ کی مثال انڈا کی ہے جس سے زندہ چوزا نکلتا ہے۔ اور مرغی زندہ ہے جس سے مردہ انڈا پیدا ہوتا ہے۔ مجازی معنی میں نیک انسان سے بعض اوقات برا آدمی پیدا ہوتا ہے اور بعض …………اوقات بدترین آدمی سے صالح اولاد پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی قدرت ہے ‘ وہ چاہے تو کافر سے مومن پیدا کر دے اور مومن سے کافر پیدا فرما دے یا نیک آدمی کی اولاد بد ہو اور برے آدمی کی اولاد نیک ہو۔ زندہ اور مردہ کا یہ معنی بھی کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا ذلک اللہ یہی اللہ تعالیٰ ہے جو یہ سب کام کرتا ہے۔ وہی ان صفات کا مالک ہے فانی توفکون مگر تم کدھر پھرے جاتے ہو ‘ تم کن چیزوں کو معبود بنا رہے ہو۔ عبادت کے لائق تو وہ اللہ ہے جو اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ یہ محیر العقول کام انجام دیتا ہے۔ رات اور دن پھر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے ۔ فالق الاصباح وہ اندھیرے کو پھاڑنے والا ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ رات کے اندھیروں کو دور کرنے والی بھی وہی ذات ہے۔ دوسری جگہ فرمایا۔ ” ان جعل اللہ علیکم الیل سرمدا الی یوم القیمۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء “۔ اگر اللہ تعالیٰ رات کو قیامت تک لمبی کردے تو کون ہے جو دن چڑھا دے اس کی یہ بھی صفت ہے وجعل الیل سکنا اس نے رات کو سکون کا ذریعہ بنایا۔ رات کے وقت ہر چیز تھم جاتی ہے ‘ انسان ‘ چرند پرند ‘ کیڑے مکوڑے سب رات کو آرام کرتے ہیں۔ آرام کرنے سے تھکاوٹ دور ہو کر قوتیں بحال ہوجاتی ہیں اور انسان تازہ دم ہو کر پھر سے کام میں لگ جاتا ہے۔ اگر انسان کو آرام میسر نہ ہو تو اس کی تمام توانیاں ختم ہوجائیں اور وہ جلد ہی فنا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے کام اور آرام کے لئے الگ اوقات مقرر کئے ہیں اور رات کو آرام و سکون کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا والشمس والقمر حسبانا سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سیاروں کو ایسی رفتار مقرر کردی ہے جس سے دن ‘ رات ‘ سرما ‘ گرماوغیرہ ایک مقررہ وقت پر آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان کا ایک فائدہ یہ ہے ” لتعلموا عد دا السنین والحساب (یونس) تاکہ تم سال و ماہ کی گنتی معلوم کرسکو رات اور دن کے تغیر تبدیل سے ایام ، ہفتے ، مہینے اور پھر سال پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح صدیاں گزر جاتی ہیں۔ تو چاند سورج اللہ نے زمانے کے حساب کے لیے پیدا کیے ہیں۔ فرمایا ذٰلیکا تقدیر العزیز العلیم یہ اس خدا تعالیٰ کا اندازہ مقرر کیا ہوا ہے جو غالب اور ہر چیز کو جاننے والا ہے وہ کمال قدرت کا مالک ہے اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا مگر تم کدھرسرگردان پھر رہے ہو ؟ یہ سب عقلی دلائل بیان کیے جا رہے ہیں ۔ کہ ان چیزوں کا روزمرہ مشاہدہ کرتے ہو۔ ان میں غور کرو گے تو سمجھ جائو گے کہ اس سارے نظام کو چلانے والی ایک ہی ذات ہے ، خداوند قدوس ہے کسی جن ، فرشتے یا انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایسا کوئی نظام پیش کرے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک اور احسان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وھو (ستاروں کے فوائد) الذی جعل لکم النجوم وہ ہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کا نظام قائم کیا ہے لتھتدو بھا فی ظلمت البر والجد تاکہ ان کے ذریعے تم خشکی اور تری میں راہ پائو۔ اور یہ راہ برا راست بھی ہو سکتی ہے اور بالواسطہ بھی۔ جب قافلے جنگلوں اور صحرائوں میں بھٹک جاتے ہیں پیا کشتیاں اور جہاز سمندروں میں راستہ گم کر بیٹھتے ہیں تو پھر ان ستاروں کی مدد سے ہی تمہیں منزل مقصود کی طرف راہنمائی حاصل ہوتی ہے اس لیے اللہ نے ستاروں کا نظام قائم کر کے انسان پر بہت بڑا انعام کیا ہے۔ اب متضاطیسی آلے قطب نماز وغیرہ بھی موجود ہیں جن کی مدد سے سمت معلوم کی جاتی ہے ، یہ آلے بھی ستاروں کی حرکتوں کے مطابق ہی بنائے ہیں۔ راہنمائی کے علاوہ اللہ نے ستاروں کے بعض دیگر فوائد بھی گنوائے ہیں مثلاً ” ولقد زینا السماٗ الدنیا بماصابیح “ ہم نے آسمان کو ستاروں کے ذریعے زینت بخشی وجعلنھا رجو ماً للشیطین (سورۃ ملک) شیاطین کو رجم کرنے کا ذریعہ بھی ستارے ہی ہیں۔ فرمایا قد فصلنا الایٰتِ لقومِ یعلمون ہم نے ان لوگوں کے لیے تفصیل کے ساتھ آئیتیں بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں اور علم کی روشنی رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یہ کرشمے اہل علم و فہم کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے ذریعے معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ نفس واحد سے پیدائش فرمایا وھوالذی انشا کم من نفس واحدۃ اور وہ ہی اللہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ نفس واحدہ سے مراد حضرت آدم علیہ اسلام ہیں جن کے وجود سے اللہ نے تمام بنی نو انسان کو پیدا فرمایا۔ سورة نساء میں بھی موجود ہے ” خلق منھا زوجھا “ آپ ہی کے جسم سے آپ کا جوڑا پیدا کیا۔ غرضیکہ تمام انسانوں کے جد امجد آدم علیہ اسلام ہیں اور ان کو مٹی سے پیدا کیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کلکم ابناء آدم و آدم من تواب یعنی ہر رنگ نسل ، شکل و صورت اور معاشرے کے لوگ آدم علیہ اسلام ہی کی اولاد ہیں ۔ نیلے ‘ پیلے ‘ چھوٹی ‘ چپٹی ‘ اور بڑی ناک والے کالے اور گورے سب اولاد آدم ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کو رنگ و نسل کی بنیاد پر حقیر جاننا بہت بری بات ہے۔ دنیا میں ایسے گورے رنگ والے بھی موجود ہیں جو سیاہ رنگ والوں کو اپنے ہوتلوں میں داخل نہیں ہونے دیتے اور کالے بچوں کو گورے بچوں کے سکولوں میں داخلے پر پابندی ہے یہ انتہا درجے کی بد تہذیبی اور انسانی کی توہین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کالے اور گورے سب ہمارے بھائی ہیں ، سب ایک شخص کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آب و ہوا کی وجہ سے کسی کو گورا بنادیا ہے اور کسی کو کالا ، مگر ساری کی ساری مخلوق خدا تعالیٰ کی ہے ، ستجر بات بتاتے ہیں کہ چار سو سال تک گرم یا سرد علاقے میں رہنے کی وجہ سے وہاں کی آب و ہوا نسل میں شامل ہوجاتی ہے اور سرد علاقومیں رہنے والے سفید اور گرم مرطوب علاقوں کے باشندے سیاہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ ہر حال تمام انسان ایک جان سے پیدا ہونے کی بناء پر برابر ہیں اور رنگ و نسل کی وجہ سے کسی کو برتری حاصل نہیں۔ فرمایا تمہیں ایک جان سے پیدا کیا فمستقد و مستور ع پس تمہارے لیے ایک امانت کے طور پر رکھنے کی عارضی جگہ ہے اور ایک ٹھکانہ ہے۔ شاہ عبدالقلور محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ باپ کی پشت سے نکل کر جب مادہ ماں کے رحم میں پہنچتا ہے تو یہ انسان کا مستقر یعنی عارضی قیام گاہ ہوتی ہے۔ یہاں مقررہ مدت تک قیام کے دوران وہ آہستہ آہستہ دنیا کے اثرات قبول کرتا ہے اور پھر ماں کے پیٹ سے مستودع یعنی دنیا کے ٹھکانے میں آجاتا ہے لیکن یہ جگہ بھی انسان کے لیے مستقل قیام گاہ نہیں ‘ بلکہ پچاس ‘ ساٹھ ‘ سو سال تک اس دنیا میں رہنے کے بعد پھر عارضی مستقر قبر کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اب وہ قبر کے قیام کے دوران آخرت کے اثرات قبول کرتا ہے۔ اور آخر کار قیامت کو وہ حشر میں پہنچ جائے گا۔ محاسبے کے بعد اس کا مستقل ٹھکانا جنت میں ہوگیا یا جہنم میں آخری قرار گاہ وہی ہے ۔ قبروں پر آخری آرام گاہ کی تختی لگانا درست نہیں۔ کیونکہ قبر کی زندگی تو عارضی اور برزخی زندگی ہے ، اس کی آخری آرام گاہ جنت یا دوزخ ہے۔ مقصد یہ کہ آخرت سے پہلے پہلے انسان عارضی قیام گاہ سے گزرتا ہے۔ ماں کا پیٹ ، دنیاوی زندگی یا عالم برزخ حقیقت میں عارضی قیام گاہیں ہیں ۔ انسان کا مستقل ٹھکانا آخرت ہے۔ فرمایا قد فصلنا الایت لقوم یفقھون ہم نے تمام آیات احکام اور دلائل کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ سمجھ رکھنے والے لوگ ان میں غور و فکر کریں اور اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لیئے یہ چیزیں کچھ مفید نہیں۔
Top