Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑ کر نکالتا ہے دانے اور گھٹلیوں سے نکالتا ہے وہ جاندار چیز کو بےجان سے۔ اور نکالتا ہے وہ مردہ کو زندہ سے یہی ہے اللہ تعالیٰ ‘ تم کدھر پھرے جاتے ہو
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے توحید کے اثبات وار شرک کی تردید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا۔ پھر دیگر اٹھارہ انبیاء کا ذکر کر کے توحید کے مئلے کی وضاحت فرمائی اس کے ساتھ منصب رسالت اور انبیاء کے فرائض کا ذکر ہوا ‘ منکرین رسالت کا رد ہوا اور تورات کو بطور مثال پیش کیا ۔ پھر آخر میں قرآن حکیم جیسی بابرکت کتاب کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے ج اللہ پر افتراء باندھتا ہے اور جو اپنی طرف وحی آنے کا جھوٹا دعویٰ کرتا یا جو شخص قرآن پاک کی مثل لانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسے ظالموں کی موت کے وقت سختیوں کا بھی ذکر ہوا اور ان کے لئے بری جزاء کو بیان کیا گیا۔ پھر انسان کو سمجھایا گیا کہ تمہیں اللہ کے پاس اکیلے حاضر ہونا ہے ‘ یہاں کی جمع کی گئی مال و دولت وہاں کچھ کام نہ آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارشی موجود ہوں گے کہ جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہیں چھڑا لیں گے۔ افضل حکمت ان آیات کا تعلق بھی سابقہ مضمون اثبات توحید اور رد شرک کے ساتھ ہی ہے تاہم یہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہ بات عقلی دلائل کے ساتھ سمجھائی ہے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا ذکر کر کے انسان کی توجہ اس طرف دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے سے اس کی توحید سمجھ میں آجائے گی حکماء کہتے ہیں کہ حکمت حقیقت میں یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے افعال کو سمجھنے لگے اور حکمت کا مطلب یہ ہے۔ معرفۃ الحقائق بقدر طاقۃ البشریۃ انسان اپنی طاقت کے مطابق حقائق کو سمجھنے لگے۔ یہ حکمت کا افضل حصہ ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے رائس الحکمہ مخافۃ اللہ حکمت کی جڑ بنیاد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ اور خدا کی ذات ‘ صفات اور اس کے افعال کو سمجھنا افضل حکمت ہے۔ اسی واسطے بزرگان دین کی دعا میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں اللھم ارنا الاشیاء کما ھی اے اللہ ! ہمیں اشیاء کو دکھا دے جیسا کہ وہ واقع کے اندر ہیں۔ انسان کی غلطیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقائق کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتا۔ کسی چیز کا صحیح علم ہی حکمت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے افضل حکمت ہے۔ دانہ اور گٹھلی بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ فالق الحب والنویٰ بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانے اور گٹھلی کو۔ اناج اور پھلوں کی پیداوار کے لئے عام طور پر دو چیزیں بطور بیج استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک دانہ اور دوسری گٹھلی ‘ اناج کی پیداوار کے لئے گندم ‘ جو ‘ چاول ‘ مکئی ‘ باجرہ وغیرہ کے دانے ہی بطور بیج زمین میں ڈالے جاتے ہیں اور اس بیج سے یہی دانے بیشمار تعدا دمیں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح پھلوں کی پیداوار کے لئے آم ‘ جامن ‘ آڑو وغیرہ کی گٹھلی لگائی جاتی ہے تو تناور درخت پیدا ہوتے ہیں جن سے متعلقہ پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو کمال علم اور کمال حکمت کے ساتھ پیدا کر کے انسانوں کی خوراک کا بندوبست کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ ایک ایک دانے اور گٹھلی سے سینکڑوں اور ہزاروں دانے اور گھٹلیاں پیدا کرنے والا وہی وحدہ لا شریک ہے تو اس کو چھوڑ کر تم کدھر بھٹک رہے ہو۔ جو اللہ انسان کی خوراک کے لئے اناج ‘ پھل اور سبزیاں پیدا کرتا ہے ‘ عبادت کے لائق بھی وہی ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ کی اسی صفت پر غور کرلے تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ مشکل کشائی اور حاجت براری بھی وہی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی طرف رجو ع کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی یہ ایک دلیل قائم کی ہے۔ جڑ اور شاخ جب دانہ یا گٹھلی کچھ عرصہ زمین کے اندر گزارنے کے بعد پھٹی ہے تو اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ اس کا ایک سرا اوپر کی طرف نکلتا ہے جو تنا اور شاخ بنتا ہے اور دوسرا حصہ نیچے کی طرف زمین کے اندر جاتا ہے جو اس پودے یا درخت کی جڑ بنتا ہے۔ زمین سے اوپر کی طرف نکلنے والی پتی نہایت ہی نرم و نازک ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے سخت زمین کو پھاڑ کر اس کے لئے راستہ بناتا ہے۔ اسی طرح نیچے جانے والا حصہ دور دور تک زمین میں پھیل جاتا ہے جو ایک طرف پودے یا درخت کے لئے زمین سے خوراک حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف اسے گرنے سے بچاتا ہے کیا یہ سب کچھ خود بخود پودے کے اپنے مزاج سے ہو رہا ہے یا اس کو کرنے والی کوئی ذات موجود ہے ؟ انسان تھوڑا سا بھی غور کرے گا تو سمجھ جائے گا کہ یہ سب کچھ کرنے والا خداوند تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل سورة عبس میں بیان فرمائی کہ انسان اپنے کھانے کی طرف غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کے پیدا کرنے میں خداوند تعالیٰ کی قدرت کا کتنا بڑا کرشمہ کارفرما ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ‘ اے انسان ! ذرا غور کر انا صببنا الماء صبا “ ہم نے کس طرح بارش کے ذریعے پانی کا انتظام کیا ” ثم شققنا الارض شقا “ پھر ہم نے زمین کو پھاڑا اور پھر اس میں سے اناج اور پھل پیدا کئے۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے اس کی شاخ نکالتا ہے اور پھر وہ اناج کا پودا یا پھل کا درخت بن جاتا ہے۔ مختلف مزاج ظاہر طور پر مختلف اقسام کا غلہ اور پھل اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے رنگ و بو اور ذائقہ میں مختلف ہوتا ہے اسی طرح باطنی طور پر ان کے مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ بعض پھل ایک مزاج کے ہوتے ہیں اور بعض میں کئی کئی قسم کے مزاج اکٹھے پائے جاتے ہیں ‘ حکماء کہتے ہیں کہ ترنج کے پھل میں چاروں مزاج یعنی سرد ‘ گرم ‘ خشک اور تربیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ دانے ‘ مغز ‘ چھلکے اور گورے کے مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ انگور میں بھی مختلف مزاج کی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی گٹھلی اور چھلکا سرد خشک ہے۔ جب کہ مغز اور پانی گرم تر ہے۔ کیا یہ اس کی اپنی طبیعت کا کام ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ یہ خاصیتیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ وہ وحدہ لاء شریک ہے۔ نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی صفات میں کوئی ساجھی ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ طبیب کسی آدمی کے خلاف ہوگئے وہ اسے ختم کرنا چاہتے تھے مگر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ آخر انہوں نے شراب میں افیون کی بہت زیادہ مقدار ملا کر اسے پلا دی اور ایک کوٹھڑی میں ڈال دیا کہ اب یہ مرجائے گا۔ خدا کی قدرت اس کوٹھڑی میں کہیں سے ایک بڑا اژدھا داخل ہوگیا۔ جس نے اس شخص کو ڈس لیا۔ پہلے اس کے جسم میں افیون کی سردخشک تاثیر تھی ‘ اب سانپ کے زہر کی تاثیر سخت گرم بھی داخل ہوگئی۔ چناچہ جب سرد اور گرم مزاج اکھٹے ہوگئے تو دونوں کا اثر زائل ہوگیا اور آدمی بچ گیا۔ نہ اس پر افیون نے اثر کیا اور نہ سانپ کے زہر نے ۔ یہ متضاد مزاجوں کا کرشمہ تھا زندہ اور مردہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی سے پودے کو نکالتا ہے اور دوسری یہ کہ یخرج الحی من المیت و مخرج المیت من الحی وہ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ مردہ کی مثال انڈا کی ہے جس سے زندہ چوزا نکلتا ہے۔ اور مرغی زندہ ہے جس سے مردہ انڈا پیدا ہوتا ہے۔ مجازی معنی میں نیک انسان سے بعض اوقات برا آدمی پیدا ہوتا ہے اور بعض …………اوقات بدترین آدمی سے صالح اولاد پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی قدرت ہے ‘ وہ چاہے تو کافر سے مومن پیدا کر دے اور مومن سے کافر پیدا فرما دے یا نیک آدمی کی اولاد بد ہو اور برے آدمی کی اولاد نیک ہو۔ زندہ اور مردہ کا یہ معنی بھی کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا ذلک اللہ یہی اللہ تعالیٰ ہے جو یہ سب کام کرتا ہے۔ وہی ان صفات کا مالک ہے فانی توفکون مگر تم کدھر پھرے جاتے ہو ‘ تم کن چیزوں کو معبود بنا رہے ہو۔ عبادت کے لائق تو وہ اللہ ہے جو اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ یہ محیر العقول کام انجام دیتا ہے۔ رات اور دن پھر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے ۔ فالق الاصباح وہ اندھیرے کو پھاڑنے والا ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ رات کے اندھیروں کو دور کرنے والی بھی وہی ذات ہے۔ دوسری جگہ فرمایا۔ ” ان جعل اللہ علیکم الیل سرمدا الی یوم القیمۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء “۔ اگر اللہ تعالیٰ رات کو قیامت تک لمبی کردے تو کون ہے جو دن چڑھا دے اس کی یہ بھی صفت ہے وجعل الیل سکنا اس نے رات کو سکون کا ذریعہ بنایا۔ رات کے وقت ہر چیز تھم جاتی ہے ‘ انسان ‘ چرند پرند ‘ کیڑے مکوڑے سب رات کو آرام کرتے ہیں۔ آرام کرنے سے تھکاوٹ دور ہو کر قوتیں بحال ہوجاتی ہیں اور انسان تازہ دم ہو کر پھر سے کام میں لگ جاتا ہے۔ اگر انسان کو آرام میسر نہ ہو تو اس کی تمام توانیاں ختم ہوجائیں اور وہ جلد ہی فنا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے کام اور آرام کے لئے الگ اوقات مقرر کئے ہیں اور رات کو آرام و سکون کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا والشمس والقمر حسبانا سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سیاروں کو ایسی رفتار مقرر کردی ہے جس سے دن ‘ رات ‘ سرما ‘ گرماوغیرہ ایک مقررہ وقت پر آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان کا ایک فائدہ یہ ہے ” لتعلموا عد دا السنین والحساب (یونس) تاکہ تم سال و ماہ کی گنتی معلوم کرسکو رات اور دن کے تغیر تبدیل سے ایام ، ہفتے ، مہینے اور پھر سال پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح صدیاں گزر جاتی ہیں۔ تو چاند سورج اللہ نے زمانے کے حساب کے لیے پیدا کیے ہیں۔ فرمایا ذٰلیکا تقدیر العزیز العلیم یہ اس خدا تعالیٰ کا اندازہ مقرر کیا ہوا ہے جو غالب اور ہر چیز کو جاننے والا ہے وہ کمال قدرت کا مالک ہے اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا مگر تم کدھرسرگردان پھر رہے ہو ؟ یہ سب عقلی دلائل بیان کیے جا رہے ہیں ۔ کہ ان چیزوں کا روزمرہ مشاہدہ کرتے ہو۔ ان میں غور کرو گے تو سمجھ جائو گے کہ اس سارے نظام کو چلانے والی ایک ہی ذات ہے ، خداوند قدوس ہے کسی جن ، فرشتے یا انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایسا کوئی نظام پیش کرے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک اور احسان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وھو (ستاروں کے فوائد) الذی جعل لکم النجوم وہ ہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کا نظام قائم کیا ہے لتھتدو بھا فی ظلمت البر والجد تاکہ ان کے ذریعے تم خشکی اور تری میں راہ پائو۔ اور یہ راہ برا راست بھی ہو سکتی ہے اور بالواسطہ بھی۔ جب قافلے جنگلوں اور صحرائوں میں بھٹک جاتے ہیں پیا کشتیاں اور جہاز سمندروں میں راستہ گم کر بیٹھتے ہیں تو پھر ان ستاروں کی مدد سے ہی تمہیں منزل مقصود کی طرف راہنمائی حاصل ہوتی ہے اس لیے اللہ نے ستاروں کا نظام قائم کر کے انسان پر بہت بڑا انعام کیا ہے۔ اب متضاطیسی آلے قطب نماز وغیرہ بھی موجود ہیں جن کی مدد سے سمت معلوم کی جاتی ہے ، یہ آلے بھی ستاروں کی حرکتوں کے مطابق ہی بنائے ہیں۔ راہنمائی کے علاوہ اللہ نے ستاروں کے بعض دیگر فوائد بھی گنوائے ہیں مثلاً ” ولقد زینا السماٗ الدنیا بماصابیح “ ہم نے آسمان کو ستاروں کے ذریعے زینت بخشی وجعلنھا رجو ماً للشیطین (سورۃ ملک) شیاطین کو رجم کرنے کا ذریعہ بھی ستارے ہی ہیں۔ فرمایا قد فصلنا الایٰتِ لقومِ یعلمون ہم نے ان لوگوں کے لیے تفصیل کے ساتھ آئیتیں بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں اور علم کی روشنی رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یہ کرشمے اہل علم و فہم کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے ذریعے معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ نفس واحد سے پیدائش فرمایا وھوالذی انشا کم من نفس واحدۃ اور وہ ہی اللہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ نفس واحدہ سے مراد حضرت آدم علیہ اسلام ہیں جن کے وجود سے اللہ نے تمام بنی نو انسان کو پیدا فرمایا۔ سورة نساء میں بھی موجود ہے ” خلق منھا زوجھا “ آپ ہی کے جسم سے آپ کا جوڑا پیدا کیا۔ غرضیکہ تمام انسانوں کے جد امجد آدم علیہ اسلام ہیں اور ان کو مٹی سے پیدا کیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کلکم ابناء آدم و آدم من تواب یعنی ہر رنگ نسل ، شکل و صورت اور معاشرے کے لوگ آدم علیہ اسلام ہی کی اولاد ہیں ۔ نیلے ‘ پیلے ‘ چھوٹی ‘ چپٹی ‘ اور بڑی ناک والے کالے اور گورے سب اولاد آدم ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کو رنگ و نسل کی بنیاد پر حقیر جاننا بہت بری بات ہے۔ دنیا میں ایسے گورے رنگ والے بھی موجود ہیں جو سیاہ رنگ والوں کو اپنے ہوتلوں میں داخل نہیں ہونے دیتے اور کالے بچوں کو گورے بچوں کے سکولوں میں داخلے پر پابندی ہے یہ انتہا درجے کی بد تہذیبی اور انسانی کی توہین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کالے اور گورے سب ہمارے بھائی ہیں ، سب ایک شخص کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آب و ہوا کی وجہ سے کسی کو گورا بنادیا ہے اور کسی کو کالا ، مگر ساری کی ساری مخلوق خدا تعالیٰ کی ہے ، ستجر بات بتاتے ہیں کہ چار سو سال تک گرم یا سرد علاقے میں رہنے کی وجہ سے وہاں کی آب و ہوا نسل میں شامل ہوجاتی ہے اور سرد علاقومیں رہنے والے سفید اور گرم مرطوب علاقوں کے باشندے سیاہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ ہر حال تمام انسان ایک جان سے پیدا ہونے کی بناء پر برابر ہیں اور رنگ و نسل کی وجہ سے کسی کو برتری حاصل نہیں۔ فرمایا تمہیں ایک جان سے پیدا کیا فمستقد و مستور ع پس تمہارے لیے ایک امانت کے طور پر رکھنے کی عارضی جگہ ہے اور ایک ٹھکانہ ہے۔ شاہ عبدالقلور محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ باپ کی پشت سے نکل کر جب مادہ ماں کے رحم میں پہنچتا ہے تو یہ انسان کا مستقر یعنی عارضی قیام گاہ ہوتی ہے۔ یہاں مقررہ مدت تک قیام کے دوران وہ آہستہ آہستہ دنیا کے اثرات قبول کرتا ہے اور پھر ماں کے پیٹ سے مستودع یعنی دنیا کے ٹھکانے میں آجاتا ہے لیکن یہ جگہ بھی انسان کے لیے مستقل قیام گاہ نہیں ‘ بلکہ پچاس ‘ ساٹھ ‘ سو سال تک اس دنیا میں رہنے کے بعد پھر عارضی مستقر قبر کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اب وہ قبر کے قیام کے دوران آخرت کے اثرات قبول کرتا ہے۔ اور آخر کار قیامت کو وہ حشر میں پہنچ جائے گا۔ محاسبے کے بعد اس کا مستقل ٹھکانا جنت میں ہوگیا یا جہنم میں آخری قرار گاہ وہی ہے ۔ قبروں پر آخری آرام گاہ کی تختی لگانا درست نہیں۔ کیونکہ قبر کی زندگی تو عارضی اور برزخی زندگی ہے ، اس کی آخری آرام گاہ جنت یا دوزخ ہے۔ مقصد یہ کہ آخرت سے پہلے پہلے انسان عارضی قیام گاہ سے گزرتا ہے۔ ماں کا پیٹ ، دنیاوی زندگی یا عالم برزخ حقیقت میں عارضی قیام گاہیں ہیں ۔ انسان کا مستقل ٹھکانا آخرت ہے۔ فرمایا قد فصلنا الایت لقوم یفقھون ہم نے تمام آیات احکام اور دلائل کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ سمجھ رکھنے والے لوگ ان میں غور و فکر کریں اور اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لیئے یہ چیزیں کچھ مفید نہیں۔
Top