Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نے والا ہے، وہی جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے یہی تو اللہ ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ؟
قدرت کے کرشمے تشریح : ان آیات کو پڑھ کر کون شخص ایسا ہے جو اللہ کی ذات سے متعارف نہ ہوجائے، یعنی جو اپنے پیدا کرنے والے واحد اللہ کو پہچان نہ سکے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی نشوونما اور اس کی زندگی گزارنے کے تمام وسیلے، یعنی رہنے کی جگہ زمین، کھانے پینے کے لیے پھل، پھول اور اناج، وقت کا اندازہ کرنے کے لیے دن اور رات کا نکلنا، آرام کرنے کے لیے رات کا پرسکون خاموش اور انتہائی خواب آور ماحول، پھر دن کا طلوع ہونا کہ جس میں ہر چیز روشن اور ظاہر نظر آنے لگتی ہے۔ چرند پرند اور انسان پیٹ پالنے کے لیے رزق کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ نئے نئے کام کرتا ہے اپنی اور پوری نسل انسانی کی سہولت، آرام اور سکون کے لیے طرح طرح کی ایجادات کرتا ہے۔ رات میں اگر کہیں جنگل، صحرا یا دریا و سمندر میں راستہ بھول جاتا ہے تو ستاروں کو دیکھ کر اپنے راستہ کو ٹھیک کرلیتا ہے۔ انسان کی پیدائش سب سے پہلے سیدنا آدم (علیہ السلام) سے کی۔ یہ شروع میں بیان گزر جاچکا ہے پھر انسان کی پیدائش پانی کی ایک بوند سے کی اسی طرح جاندار پرندے بےجان انڈا دیتے ہیں پھر اس بےجان انڈے سے زندہ جیتا جاگتا پرندہ نکل آتا ہے یہ سب کیسے ہوتا ہے ؟ گٹھلی یا بیج بظاہر بےجان نظر آتے ہیں مگر اللہ کی قدرت کہ اس کے پھول کر پھٹنے اور پھر جڑوں کا ٹہنیوں کا پودا بن کر پھول اور پھل دینے کا حساب کتاب اس دانے کے اندر اللہ رب العزت نے بند کر کے رکھ دیا ہوتا ہے اور پھر اسی حساب اور اندازے کے مطابق وہ دانہ پودا، درخت یا جھاڑی بن جاتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ مٹر کے دانے سے آلو اگ آئے یا آم کے درخت پر آڑو لگ جائیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے بہت کافی ہے۔ یہ سب باتیں ایک ان پڑھ، جاہل، مرد بچہ اور عورت سب بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ وہ سمجھنا چاہیں۔ جب یہ سمجھ آجاتی ہے تو پھر ہوش مند، تجربات کرنے والے، عقل مند اور تحقیق کرنے والے انسان ان تمام حقیقتوں کا کھوج لگانا شروع کردیتے ہیں جن حقیقتوں کا نام ہے فلسفہ، سائنس، طب، کیمیا، ریاضی، طبیعات، علم الافلاک، ( آسمانوں کا علم) علم نجوم (ستاروں کا علم) غرض ہر وہ علم جس سے دنیا نے آج اس قدر ترقی کی ہے کہ کائنات کے راز معلوم ہو رہے ہیں، بیماریوں اور ان کے علاج کے ایسے ایسے موثر طریقے ایجاد ہوگئے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ان تمام علوم کی طرف قرآن مجید کی ان آیات میں اور بیشمار مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اشارے کیے گئے ہیں جن کو عقلمند اور پڑھے لکھے انسانوں نے بنیاد بنا کر ایجادات کیں۔ یہ حقیقت ہے اور سو فیصد سچ بھی ہے کیونکہ مسلمانوں نے قرآن پڑھا اور یہ تمام حقائق معلوم کئے، ان پر غور و فکر کیا، نئی نئی ایجادات کیں ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ تمام ترقی کا سہرا مسلمان سائنس دانوں، حکماء اور محققین کے سر ہی بندھتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کا انسان اس بات سے بالکل لاعلم ہے اور سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کارنامے اہل یورپ کے ہیں۔ مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ ہوا یوں کہ یورپ نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زوال اور عیسائیوں کے عروج کے وقت مسلمانوں کے انتہائی قیمتی علمی، تحقیقاتی اور تجرباتی ذخائر اپنے قبضہ میں کرلیے پھر ان کے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور اطالوی زبانوں میں ترجمے کر کے ان کو اپنے موجودہ تمام ترقیاتی کاموں کی بنیاد بنا کر نت نئے نئے کارنامے کیے، حالانکہ ان تمام کارناموں کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی تھی۔ مثال کے طور پر علم الافلاک کی بنیاد بنو امیہ کے ایک شہزادے خالد بن یزید نے رکھی تھی۔ اس نے دوسری صدی ہجری کے آخر میں فلک کا ایک کرہ دھات سے تیار کروایا۔ دور بین انور اسحاق ابراہیم بن جندب نے دوسری صدی ہجری کے وسط میں ایجاد کی مگر 9 سال بعد گلیلو نے اس کو ترقی دیکر ٹیلی سکوپ بنا کر ایجاد اپنے نام منصوب کرلی۔ فن کیمیا کا ماہر جابر بن حیان، تیسری صدی ہجری کے شروع کا ماہر ریاضی دان احمد عبداللہ حبش بغدادی گزرا ہے۔ ماہر مسلمان سائنسدان عبدالمالک اصمعی نے تیسری صدی ہجری کے شروع میں حیوانات اور انسان پر پانچ مفصل بہترین تحقیقاتی کتابیں لکھیں۔ مگر یہ سب کچھ اور اسی طرح کی بیشمار دوسری تحقیقات اور ایجادات مسلمانوں نے کیں جو سب انگریزوں نے اپنے نام کروا رکھی ہیں اور اکثر مسلمان اس بات سے لاعلم ہیں۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر وہ زوال جو مسلمانوں پر آیا اس سے عبرت حاصل کر کے مسلمان دوبارہ اپنے کلام پاک کو راہنما بنا کر شریعت پر پوری طرح عمل کر کے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کیوں نہیں کرتے۔ یہ کام نہ تو کوئی مشکل ہے اور نہ ہی ناممکن۔ ذرا سی محنت، لگن اور توجہ کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے بچوں میں دوسری اقوام کے مقابلہ میں نسبتاً زیادہ سمجھ بوجھ اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی مذہب سے دوری، مال سے محبت، لالچ، حسد، بغض اور خود غرضی نے یہ تک بھلا دیا ہے کہ یہ زمین جو ہماری حفاظت کرتی ہے زندہ ہوں تو زندگی گزارنے کے تمام سامان اسی سے مہیا کیے گئے ہیں، پھر جب ہم مرجاتے ہیں تو بھی یہی زمین ہی ہمیں اپنے اندر جذب کر کے سمیٹ لیتی ہے۔ ماں کی گود کی طرح زمین ہمیں اپنے اندر سمیٹ کر تمام غموں، فکروں اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کی حفاظت کرنا، اس کو صاف ستھرا رکھنا اور اس سے محبت کرنا ہر انسان کا فرض ہے اور پھر یہ بھی ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح زمین کے اوپر ہمیں کچھ عرصہ زندگی گزارنے کی اجازت ہے اسی طرح زمین کے اندر ہنا بھی ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ کچھ عرصہ، یعنی موت اور قیامت کے درمیان کا عرصہ جو عالم برزخ کہلاتا ہے وہی زمین کی گود (قبر) میں گزارنے کی اجازت ہے، یعنی وہ ٹھکانا بھی عارضی ہے پھر قیامت کے دن تمام لوگ اسی زمین میں سے اللہ کے حکم سے باہر نکل آئیں گے اپنے اعمال نامے اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے اللہ رب العزت کے حضور حاضر ہونے کے لیے بھاگے چلے جائیں گے۔ یہ حشر کا میدان ہوگا جہاں رب العالمین ہر شخص کا دنیا میں کیے گئے کاموں کا حساب کتاب لے کر پورے انصاف سے سزا یا جزا، یعنی جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے جو سو فیصد سچ ہے۔ یہ ہو کر رہے گا اور ہر مسلمان کو اس کا یقین کرنا ضروری ہے۔ یہ حساب کتاب ہر انسان اور جن کا ضرور ہوگا۔ جب ایک شخص ان باتوں کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ کس طرح کوئی غلط کام کرسکتا ہے۔ ہمارے آبائو اجداد اسی لیے کامیاب تھے کہ انہوں نے قرآن حکیم کی حکمتوں پر غور و فکر کیا اور دنیا کو زیر کرلیا۔ حکمت خیر کثیر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اور جسے دی گئی دانائی تو یقینا اسے بہت بھلائی دی گئی۔ “ ( سورة البقرہ آیت : 269) قرآن مجید حکمت و دانائی اور علم و معرفت کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ آخری کتاب ہے اس میں انسان کو تمام مسائل اور تمام علوم کے بارے میں اتنی وضاحت اور آسان طریقہ سے سکھایا گیا ہے کہ اب اس کے بعد نہ کسی نبی کی ضرورت باقی رہی نہ شریعت کی اور نہ ہی آسمانی کتاب کی۔ یہ رشد و ہدایت کا مجموعہ ہے اور تمام کائنات کے راز اس میں موجود ہیں سمجھنے، غور کرنے اور عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ جو اس سے غافل ہوئے ناکام ہوئے اس دنیا میں اور آخرت میں بھی وہ بالکل خالی ہاتھ ہی ہوں گے۔ لہٰذا اس زندگی سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر بلندیوں کا رخ کرنا چاہیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا و آخرت میں سرخ رو نہ ہوسکیں۔ ایمان میں بڑی طاقت ہے۔ اپنی ساری کھوئی ہوئی کامیابیاں ہم دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں سے میری اپیل ہے کہ قرآن کی روشنی میں ایمان کا جھنڈا لے کر عمل کے میدان میں نکل کھڑے ہوں۔ انشاء اللہ ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہ سکے گا۔ علامہ اقبال نے ایک کامل انسان کو مرد مومن کہا ہے اور اس کی تعریف میں فرماتے ہیں : ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
Top