Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
فَالِقُ
: چیرنے والا
الْحَبِّ
: دانہ
وَالنَّوٰى
: اور گٹھلی
يُخْرِجُ
: نکالتا ہے
الْحَيَّ
: زندہ
مِنَ
: سے
الْمَيِّتِ
: مردہ
وَمُخْرِجُ
: اور نکالنے والا ہے
الْمَيِّتِ
: مردہ
مِنَ
: سے
الْحَيِّ
: زندہ
ذٰلِكُمُ
: یہ ہے تمہارا
اللّٰهُ
: اللہ
فَاَنّٰى
: پس کہاں
تُؤْفَكُوْنَ
: تم بہکے جارہے ہو
دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے ۔ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور ہی مردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے ۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے ‘ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو
(آیت) ” نمبر 95۔ یہ وہ معجزہ ہے جس کے راز تک کوئی نہیں پہنچ سکا یہ تو بڑی بات ہوگی کہ کوئی یہ معجزہ کر دیکھائے ۔ کیا معجزہ ؟ یعنی زندگی کی تخلیق اور اس کی نشوونما اور اس کی حرکت ‘ ہر وقت ایک زندہ اور بڑھنے والے درخت سے مردہ بیج نکالتا ہے اور ایک بےجان گٹھلی ایک بڑھنے والے درخت سے نکلتی ہے ۔ پھر اس بیج اور اس گٹھلی کے اندر پوشیدہ زندگی ایک پودے اور ایک درخت کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ یہ ایک خفیہ راز ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کریم کو ہے ۔ اس زندگی کا اصل مصدر اور منبع کیا ہے ‘ اس بات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ انسان نے جو بھی عملی ترقی کی ہے ‘ جس قدر زندگی کے ظاہری امور کا مطالعہ کیا ہے اور جس قدر خصائص بھی متعین کئے ہیں اس کی انتہاء پر ایک راز ہے جو غائب ہے ۔ اس سلسلے میں جس طرح پہلے انسان کا علم محدود تھا اسی طرح اس آخری دور کے ترقی یافتہ انسان کا علم بھی محدود ہے ۔ انسان صرف مظاہر اور خواص حیات سے واقف ہے لیکن اسے زندگی کے اصل منبع اور اس کی اصل ماہیت کا علم نہیں ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے رواں دواں ہے اور یہ معجزہ ہر لحظہ واقعہ ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے روز اول سے ایک مردہ حالت سے انسان کو زندگی پخشی ۔ یہ کائنات تو تھی مگر انسان نہ تھا یہ زمین تھی مگر اس پر زندگی نہ تھی ۔ پھر یہ زندگی اذان الہی سے نمودار ہوئی ۔ یہ کیسے نمودار ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ زندگی مردے سے نمودار ہو رہی ہے اور مردہ ذرات زندگی کے ذریعے زندگی پاتے ہیں ۔ یہ بےجان مواد زندہ عضوی شکل اختیار کرتا ہے ‘ اور پھر یہ زندگی خلیہ انسان کے جسم میں اور تمام جانداروں کے جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ زندہ ذرات اب مزید تغیر پذیری کے ذریعے زندہ خلیے بن جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ زندہ خلیے پھر مرجاتے ہیں ۔ کیونکہ زندہ خلیے ہر وقت مردہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہو یہ زندہ شخص یا جانور ایک دن مردہ ذرات کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے مفہوم اس جملے کا ۔ (آیت) ” یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیَِّ (95) ” وہ زندہ کو مردے سے خارج کرنے والا ہے اور مردے کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے ۔ “ اللہ کے سوا کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آغاز حیات کے وقت اللہ کے سوا کوئی اور حیات پیدا کرسکے اور نہ کوئی یہ قدرت رکھتا کہ وہ مردہ ذروں کو زندہ ذروں کی شکل دے دے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان زندہ ذروں کو پھر مردہ ذروں کی شکل دیتا ہے اور یہ سرکل ایک ایسا سرکل ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور کب یہ سرکل ختم ہوگا ۔ سائنس دان جو قیافے لگاتے رہتے ہیں وہ محض احتمالات ہیں ۔ اس کرہ ارض پر ظہور حیات کے خصائص کے بارے میں آج تک سائنس دانوں نے جو نظریات بیان کیے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ بھی تشفی بخش نہیں ہے ۔ صرف یہ نظریہ تشفی بخش ہے کہ اس دنیا پر تخلیق کائنات ذات باری کا کارنامہ ہے اور یورپ میں جب قرون وسطی میں عوام کنیسہ سے بھاگ کھڑے ہوئے جس طرح بدکے ہوئے گدھے ہوں یا جس طرح شیر کے ڈر سے جانور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ مذہب سے فرار اختیار کرنے والوں نے جب اس کرہ ارض پر تخلیق حیات کے راز کے عقدے کو حل کرنا چاہا ‘ پھر جب انہوں نے خود اس کائنات کی تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا ‘ اور یہ کام انہوں نے خدا کے نظریے کو اپناتے ہوئے کیا تو ان کی تمام مساعی ناکام رہیں اور بیسوی صدی میں اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ تمام تحریریں عناد اور انکار مذہب پر مبنی تھیں اور کوئی مخلصانہ مساعی نہ تھیں ۔ ان سائنس دانوں میں سے بعض صحیح الفکر لوگوں نے اپنے عجز ناتوانی کا اعراف کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس موضوع پر انسان کا علم کس قدر محدود ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو سترہویں یا انیسویں صدی کے مغربی افکار کو نقل کرتے ہیں ۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ سائنس دان ہیں اور صرف مشاہدے کے قائل ‘ جبکہ اہل مذہب عالم غیب کو ماننے والے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کو سمجھانے کے لئے میں یہاں بعض بڑے سائنس دانوں کے اقوال نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں مثلا بعض امریکی علماء یہاں تک پہنچے ہیں۔ ڈاکٹر فرانک ایلن ‘ کو رنل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور کینیڈا کی مانٹویا یونیورسٹی میں حیاتیات کے استاد ہیں ۔ اپنے ایک مقالے میں جس کا عنوان ہے ” یہ دنیا یہ یا اتفاقا وجود میں آئی یا منصوبے کے تحت “ ۔ یہ مقالہ بتجلی فی عصر العلم کتاب ترجمہ ڈاکٹر مرداش عبدالحمید سرفان سے نقل کیا گیا ہے ۔ ” اگر یہ زندگی کسی سابقہ متعین منصوبے اور اسکیم کے تحت وجود میں نہیں لائی گئی تو پھر یہ اتفاقا وجود میں آگئی ہوگی ۔ وہ ” اتفاق “ کیا ہے ؟ معلوم ہونا چاہئے تاکہ ہم اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس ” اتفاق “ کے ذریعے زندگی کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ۔ “ ” اتفاق اور احتمال (بخت واتفاق) کے جو نظریات اس وقت پائے جاتے ہیں پہلے کی طرح نہیں ہیں ۔ دور جدید میں اب ان کے لئے ریاضی کے کچھ ٹھوس اصول اور قواعد مرتب ہوچکے ہیں اور اگر کسی موضوع پر یقینی فیصلہ نہ کی جاسکتا ہو تو ان اصولوں کے مطابق بخت واتفاق کے اصولوں کو کام میں لایا جاتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اقرب الی الصواب ہوتے ہیں اگرچہ ان نتائج کے غلط ہوئے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاضی کے زاویہ سے نظریہ بخت واتفاق نے کافی ترقی کرلی ہے ۔ ان قواعد اور اصولوں کے مطابق انسان کے لئے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ بعض واقعات کے بارے میں بات کرسکے ۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات اتفاقا ہوگئے ہیں اور جن کے ظہور کے اسباب و عوامل دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتے ۔ (مثلا تاش کے کھیل میں پھول کا پھینکنا) ان تحقیقات کی وجہ سے انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیا چیز اتفاقا وجود میں آجاتی ہے اور کیا امر جو اتفاقا وجود میں نہیں آسکتا ۔ (اسلامی تصورحیات کے مطابق اس دنیا میں بخت واتفاق نہیں ہے ۔ ہر چیز کی تخلیق تقدیر الہی کے مطابق ہوتی ہے ۔ ان خلقلنا کل شیء بقدر۔ (ہم نے ہر چیز کو اندازے کے مطابق تخلیق کیا) اللہ نے تخلیق کائنات کے لئے اٹل قوانین وضع کئے ہیں ۔ جو واقعات ہوتے ہی ان ہر بار سنت الہیہ کے مطابق تقدیر الہی تصرف کرتی ہے ۔ اسی طرح یہ قوانین قدرت بھی کبھی کبھی ٹال دئیے جاتے ہیں اور ایک خارق عادت معجزہ صادر ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی ایک خاص حکمت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ یہ نوامیس فطرت اور خارق عادت بظاہر دونوں اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہم نے جو سائنس دانوں کے حوالے دیئے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہم محولہ بالاعبارت سے پوری طرح متفق بھی ہوں) اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ کون سا واقعہ کس قدر عرصے کے بعد اتفاقا نمودار ہوسکتا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور بطور اتفاق ہو سکتا ہے ۔ “ تمام زندہ خلیوں میں پروٹین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ یہ پروٹین پانچ عناصر سے مرکب ہوتے ہیں ۔ کاربن ہائیڈوجن ‘ نائٹروجن ‘ آکسیجن اور گندھک ۔ ایک پروٹین میں چالیس ہزار ایٹم ہوتے ہیں ، کیمیاوی عناصر کی تعداد 29 ہے ۔ اور یہ سب غیر منظم اور نامعلوم مقداروں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ (عقل انتہائی بھی فلسفیانہ اصطلاحات میں سے ایک ہے ۔ ایک مسلمان اللہ پر صرف اس کے اسمائے حسنی ہی کا اطلاق کرسکتا ہے اس لئے اللہ پر اس لفظ کا اطلاق مناسب نہیں ہے) ان پانچ عناصر کے آپس میں ملنے کے احتمال کے تعین کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مادے کی مقدار اور زمانے کا تعین ہو اور وہ مادہ مسلسل ان عناصر پر مشتمل مخلوطہ میں رہے اور پھر اس قدر طویل عرصے تک وہ مادہ یونہی رہے تاکہ اس عرصے میں ” اتفاقا “ واقعہ ہوجائے اور یوں ایک عدد پروٹین حاصل ہوجائے ۔ “ غرض یہ تعین ضروری ہے کہ کتنا مادہ کتنے عرصے کے لئے ضروری ہے ۔ “ ” سوئٹزر لینڈ کے ایک ریاضی دان نے کچھ حساب لگایا ہے (چار لزیوجین جے) اس نے اس کا حساب لگا کر کہا ہے کہ احتمال کے طور پر ایک پروٹین کی تشکیل پر ایک نسبت : دس کی قیمت 160 مرتبہ لگائی جائے (1 : 160 : 1) یہ اس قدر بڑی رقم بنتی ہے کہ زبان سے اس کا ادا کرنا بھی مشکل ہے نہ الفاظ کے ذریعے اسے بیان کیا جاسکتا ہے اور بطور اتفاق اس عمل کی تکمیل کے لئے یعنی ایک پروٹین کی تشکیل کے لئے اس قدر مادے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اس پوری کائنات کو کئی ملین بار بھرا جاسکتا ہو اور اگر صرف روئے زمین پر اتفاقا ایک پروٹین کو پیدا کرنا ہو تو اس کے لئے کئی بلین سالوں کی ضروری ہوگی اور یعنی 10 کی ” 243 (243 : 10) یہ زمانہ مذکور ماہر طبیات نے تجویز کیا ہے ۔ ” پروٹین اینوایسڈ کے طویل سلسلوں سے تشکیل پاتے ہیں ‘ تو سوال یہ ہے کہ ان جزئیات کے ذرات کی باہم تالیف کس طرح ہوتی ہے ؟ جس طرح ان کی تشکیل طبعی ہوتی ہے اگر اس کے سوا کسی اور طریق سے ان کی تالیف ہو تو وہ زندگی کے اہل ہی نہیں رہتے ‘ اور بعض اوقات ایسے پروٹین زہربن جاتے ہیں ۔ ایک برطانوی سکالر ۔ ج ۔ ب سیتھر (J.B.SeAther) نے حساب لگایا ہے کہ ان سلسلوں میں پروٹینی ایٹم کس تعداد میں ہوتے ہیں انکے نزدیک انکی تعداد (48 : 10) ہوتی ہے ۔ اس لئے عقلا یہ بات محال ہے کہ احماض امینہ کا یہ پورا سلسلہ محض اتفاقی طور پر تالیف پا جائے اور دنیا میں ایک پروٹین بن جائے ۔ “ ” لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات پیش نظر رہے کہ پروٹین ایک کیمیاوی مادہ ہے جس کے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی اور اس کے اندر زندگی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک اس کے اندر وہ خفیہ عمل نہیں ہوجاتا جو آج تک ایک عجیب راز ہے اور جس کی حقیقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور اس بات کو صرف ” عقل لا انتہائی “ 2۔ جانتا ہے اور یہ صرف اللہ ہے جس کی حکمت بالغہ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ یہ پروٹینی جزء مقرحیات بنتا ہے ۔ یہ حیات کی منزل ہے جسے اللہ نے بنایا ۔ اس کو ایک بہترین شکل دی ہے اور اس کو راز حیات بخشا ہے ۔ “ نباتات کی موروثی صفات کے ایک ماہر مسٹر ایرٹنگ ولیم ‘ استاد طبیعیات جامعہ ایوی مچیگن مقالے بعنوان ” صرف مادیت کافی نہیں ہے “ میں لکھتے ہیں : سائنس اس بات پر قادر نہیں ہے کہ نہایت ہی چھوٹے ایٹم لاتعداد صورت میں کس طرح وجود میں آجاتے ہیں ‘ جن سے دنیا کے تمام مادے مرکب ہوتے ہیں اور اس طرح سائنس کوئی قابل اعتماد توجیہ نہیں کرسکتی کہ ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے ذی حیات جاندار کس طرح اتفاقا بن جاتے ہیں اور یہ نظریہ کہ تمام جاندار اپنی موجودہ ترقی یافتہ صورت میں بسبب حدوث غفرات عشورئیہ اور ھجائن کے تجمعات کی وجہ سے پہلے پہنچے ایک ایسا نظریہ ہے جو کسی ایسی دلیل ومنطق کی اساس پر قائم نہیں ہے جس پر اطمینان ہوتا ہو ‘ یہ بات محض تسلیم کرلینے کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ “ (یہ بھی سائنس دانوں کا خبط ہے کہ عناصر کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔ ان عناصر کی مقدار بھی مقرر ہے) باہلر یونیورسٹی کے پروفیسر طبیعیات ڈاکٹر البرٹ میکومب ونسٹر اپنے ایک مقالے کا عنوان یہ دیتے ہیں ” سائنس نے میرا ایمان باللہ کو مضبوط کردیا “۔ وہ لکھتے ہیں : ’ میں نے حیاتیات کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھا ۔ حیاتیات وہ علم ہے جس کا موضوع زندگی ہے جس کا میدان مطالعہ بہت ہی وسیع ہے اور اللہ کی تمام مخلوقات میں سے زیادہ دلکش چیز اس دنیا کی زندہ مخلوق ہے ۔ “ ” ذرا پودے کو دیکھئے ‘ یہ نہایت ہی چھوٹا پودا ہے ۔ یہ راستے کے ایک کنارے پر اگا ہوا ہے ۔ کیا آپ بیشمار انسانی مصنوعات وآلات میں سے کسی چیز کو اس کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک زندہ آلہ ہے اور مسلسل رات دن چلتا رہتا ہے ۔ اس کے اندر ہزاروں کیمیاوی عمل اور ردعمل واقعہ ہوتے رہتے ہیں ‘ طبعی تغیرات ہوتے ہیں اور پروٹوپلازم کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے ۔ “ ” سوال یہ ہے کہ یہ زندہ اور پیچیدہ آلہ کہاں سے آگیا ؟ اسے اللہ نے صرف اس کو اس شکل میں نہیں بنایا بلکہ اللہ نے پوری زندگی کو بھی تخلیق کیا ہے اور اسے اپنے تحفظ کی قوت بھی دی ہے ۔ وہ اس زندگی کو تسلسل بھی ہے اور اس نے اس کے اندر وہ تمام خواص رکھے ہیں اور تمام خصوصی صفات اس کے اندر ودیعت کیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک پودے اور دوسرے پودے کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ زندہ اشیاء میں اس عظیم کثرت کا مطالعہ بھی ایک عظیم اور دلچسپ موضوع ہے اور اس سے قدرت کی طاقت کی بو قلمونیوں کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ خلیہ جس کے ذریعے نسل کشی ہوتی ہے اور ایک نیا پودا وجود میں آتا ہے اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پودے کے خواص ‘ ہر رگ ‘ ہر ریشہ ‘ ہر شاخ اور ہر تنا ‘ ہر جڑ اور ہر چھوٹا ریشہ ‘ ایسے انجینئروں کی زیر نگرانی سرانجام پاتا ہے کہ یہ تمام نقوش اس چھوٹے سے خلیہ کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر موجود رہتے ہیں ۔ یہ انجینئرکون ہوتے ہیں ؟ یہ کروموسوم ہوتے ہیں ۔ “ میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر حوالے کافی ہیں اب پھر ہم دوبارہ اس حسن ادا کی طرف لوٹتے ہیں جو قرآن کریک کی عبارت میں موجود ہے ۔ : (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ (6 : 102) (یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ تمہارا رب ہے ۔ “ جو اس معجزہ حیات کا موجد ہے اور اس معجزے کا ظہور تسلسل سے ہو رہا ہے لیکن راز حیات کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اور وہی اس بات کا مستحق ہے کہ تم لوگ اس کے حلقہ بگوش بنو ۔ اس کے ساتھ خشوع و خضوع کرو اور اس کے احکام کا اتباع کرو۔ (آیت) ” فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تم اس سچائی سے صرف نظر کر کے دوسری راہوں پر چل رہے ہو حالانکہ یہ راہ حق ہے عقلی طور پر واضح ہے ‘ دل لگتی بات ہے اور چشم بصیرت کے لئے تشفی ہے ۔ یہ معجزہ یعنی مردے سے زندہ کو نکالنا ‘ قرآن نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے اور اس حقیقت کو بھی قرآن نے باربار دہرایا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے جو بتلاتے ہیں کہ خالق خائنات وحدہ لاشریک ہے ۔ یہ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ خالق کائنات ایک ہے اور اسی وحدہ لا شریک کی بندگی کی ضرورت ہے ۔ عقیدہ ونظریہ میں بھی وحدہ لا شریک کو مانا جائے اور ربوبیت بھی اسی وحدہ لاشریک کی تسلیم کی جائے ۔ مراسم عبودیت بھی اسی کے سامنے بجا لائے جائیں اور زندگی کے قوانین اور ضوابط بھی اسی کے احکام سے اخذ کئے جائیں ۔ صرف اسی کے نافذ کردہ قانونی نظام یعنی شریعت کی پابندی کی جائے ۔ (اس مصنف نے اس مقالے میں برٹرینڈرسل کے اس نظریے کی تردید کی ہے کہ زندگی اتفاق کے طور پر وجود میں آتی ہے اور اتفاقا چلی جاتی ہے) قرآن کریم میں ان باتوں کا ذکر محض لاہوتی فلسفیانہ انداز میں نہیں کیا جاتا ۔ یہ دین تو بہت ہی معقول اور سنجیدہ دین ہے اور لوگوں کا وقت لاہوتی مباحث اور فلسفیانہ موشگافیوں میں ضائع نہیں کرتا ۔ دین اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے تصور حیات کو درست کیا جائے اور انہیں صحیح افکار اور صحیح عقائد دیئے جائیں تاکہ انکی ظاہری اور باطنی زندگی درست ہو سکے ۔ لوگوں کی زندگی کی اصلاح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کی طرف لوٹ جائیں اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں ۔ جب تک کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار نہ کرلیں اور روز مرہ کی زندگی میں اللہ وحدہ کی شریعت کو نہ اپنالیں ۔ حیات کے بارے میں ان کا عقیدہ اور نظریہ درست نہیں ہوسکتا ، ان کی زندگی میں ایسے لوگوں کا اقتدار نہ ہو جو زبردستی ان پر مسلط ہوگئے ہوں ‘ جو بالفاظ دیگر حق الوہیت کے دعویدار ہیں اور لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کے حق حاکمیت کے بجائے وہ خود اپنا حق استعمال کرتے ہی ۔ یوں وہ اس دنیا کے جھوٹے خداؤں میں شامل ہوگئے ہیں انہوں نے لوگوں کی حیات دنیوی میں بگاڑ پیدا کردیا ہے اور یہ فساد محض اس لئے ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنے لگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان باتوں پر تعقیب یہ آتی ہے ۔ (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” یہ سارے کام تو اللہ تمہارے رب کے ہیں پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تمہاری زندگی میں ربوبیت یعنی مکمل اطاعت کا مستحق تو وہی ہے ۔ رب کا مفہوم ہے مربی ‘ جس کی طرف انسان متوجہ ہو ‘ جو سردار اور حاکم ہو ‘ اپنے ان مفہومات کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی اور رب نہیں ہے ۔ (لفظ رب کی توضیح کے لئے دیکھئے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب المصطلحات الاربعہ فی القرآن)
Top