Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ (کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا) ہے۔ وہی جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جان دار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
آیت نمبر 95 تا 100 ترجمہ : بیشک بیج کو پھاڑ کر بناتات نکالنے والا اور گٹھلیوں کو چیر کو کھجور کے درخت نکالنے والا اللہ ہی ہے وہ جاندار کو بےجان سے جیسا کہ انسان اور پرندے کو نطفہ اور انڈے سے اور بےجان کو مثلاً نطفہ اور انڈے کو جاندار سے نکالنے والا ہے یہ شق کرنے والا نکالنے والا اللہ ہے تو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو تو تم دلیل کے موجود ہونے کے باوجود کس طرح ایمان سے پھرے جا رہے ہو، وہ (پردہ شب کو چیر کر) صبح کو نکالنے والا ہے (الاصباح) مصدر بمعنی صبح ہے یعنی وہ ستون صبح (صبح کاذب) کو چاک کرنے والا ہے اور ستون صبح تاریکی شب سے نکلنے والی دن کی اس روشنی کو کہتے ہیں جو ابتداء نمودار ہوتی ہے اور رات کو راحت کی چیز بنایا کہ اس میں مخلوق تعب سے راحت حاصل کرتی ہے اور ضبط اوقات کیلئے سورج اور چاند کا حساب مقرر کیا نصب کے ساتھ اللَّیل کے محل پر عطف ہے یا باء محذوف ہے (ای بحُسْبَان) اس صورت میں مقدر سے حال ہوگا ای یجریان بحُسْبَان، جیسا کہ سورة رحمٰن میں ہے یہ مذکورہ (حساب) اپنے ملک میں غالب اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر کا مقرر کیا ہوا ہے اور وہ ایسا ہے کہ جس نے تمہارے لئے تاروں کو پیدا فرمایا تاکہ تم ان کے ذریعہ بحروبر کی ظلمت میں سفر کے دوران رہنمائی حاصل کرو بیشک ہم نے ہماری قدرت پر دلالت کرنے والے دلائل کو کھول کھول کر بیان کیا ایسے لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تم کو شخص واحد سے پیدا کیا (اور) وہ آدم ہیں، سو رحم (مادر) تمہارے لئے قرار گاہ ہے اور (صلب پدر) تمہارے لئے امانت گاہ، اور ایک قراءت میں قاف کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی تمہارے لئے جائے قرار، بیشک ہم نے دلائل کو سمجھدار لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کردیا وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے آسمان (بادلوں) سے پانی برسایا اس میں غائب سے (تکلم کی جانب) التفات ہے اور اس پانی کے ذریعہ اگنے والی ہر قسم کی نبات اگائی پھر ہم نے اس نبات سے ہری بھری ایک چیز (کھیتی) اگائی، خضراً بمعنی اخضر ہے ہم نے اس کھیتی سے تہ بر تہ جمے ہوئے دانے پیدا کئے کہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھے رہتے ہیں جیسا کہ گندم وغیرہ کے خوشے، اور کھجور کے شگوفے (من النخل) خبر (مقدم) ہے اور من طلعھا، اس سے بدل ہے، (طلعٌ) اس شئ کو کہتے ہیں جو ابتداء کھجور کے درخت سے اپنے غلافوں سے نکلتی ہے اور قنوان دانیۃ مبتداء مؤخر ہے، قِنْوَان بمعی عراجین ہے بمعنی شاخ عَرَاجین عَرجون کی جمع ہے جس کے معنی شاخ کے ہیں جو جھکی ہوئی شاخوں میں ہوتے ہیں ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اور ہم نے پانی سے انگوروں کے اور زیتون کے اور انار کے باغات پیدا کئے کہ ان دونوں کے پتے ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں (مشتبِھاً ) حال ہے اور ان کے پھل مشابہ نہیں ہوتے، اے مخاطبو ! اس کے پھلوں کو چشم عبرت سے دیکھو (ثمر) میں ثاء اور میم کے فتحہ اور دونوں کے ضمہ کے ساتھ ہے یہ ثَمَرَۃٌ کی جمع ہے جیسے شَجَرَۃٌ کی جمع شَجَرٌ ہے، اور خَشَبَۃٌ کی جمع خُشُبٌ ہے کہ جب وہ اول مرتبہ پھل لاتا ہے تو وہ کیسا ہوتا ہے ؟ اور اس کے پکنے (کی حالت) کو دیکھو کہ جب وہ قابل استفادہ ہوجائے تو کیسا ہوجاتا ہے ؟ ! بلاشبہ اس میں ایمان والوں کیلئے بعث بعد الموت وغیرہ کے دلائل ہیں، مومنین کا ذکر خاص طور پر اسلئے کیا ہے کہ کافروں کے خلاف مومنین میں دلائل سے ایمان کے بارے میں استفادہ کرتے ہیں اور لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک قرار دے رکھا ہے، اَللہ جَعَلُوا کا مفعول ثانی ہے اور شرکاء مفعول اول ہے اور الجنَّ ۔ شرکاء سے بدل ہے، اس لئے کہ انہوں نے بتوں کی پرستش کرنے میں ان کی اطاعت کی ہے حالانکہ (خود) ان لوگوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو جنات اس کے شریک کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اور ان لوگوں نے اللہ کیلئے بغیر سمجھے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لئے ہیں، (خرقوا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے اسلئے کہ انہوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اللہ اس سے پاک ہے اور ان اوصاف سے برتر ہے جو یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی اولاد ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یُخرِجُ الحیَّ مِنَ المیّت، یہ جملہ کلام مستانف قائم ما قبل کی علت کے ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اِنَّ کی۔۔۔ ثانی ہو، اور حیّ سے ہر وہ شئ مراد ہے جس میں نموہو خواہ ذی روح ہو یا نہ ہو، اور میت سے ہر شئ مراد ہے جس میں۔۔۔ نہ ہو۔ قولہ : مُخْرِج، اس کا عطف فالِقٌ پر ہے، اس لئے یخرج کے بجائے مخرج اسم فاعل کا صیغہ لائے ہیں تاکہ عطف درست ہوجائے اور یُخرِجُ الحیَّ مِنَ المیّت، فالق الحبّ والنویٰ کا بیان ہے اسی لئے واؤ کو ترک کرکے یُخرِجُ کہا ہے۔ سوال : و مخرج المیتِ مِنَ الحیّ ، بیان واقع کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جواب : اس لئے کہ فالق الحب والنویٰ ، اِخْراجُ الحیّ من المیت کی جنس سے ہے نہ کہ اس کا عکس حالانکہ بیان اور مبین کے مفہوم میں مطابقت ضروری ہے۔ قولہ : فکیفَ تصرفون الخ، اَنّیٰ تؤفکون کی تفسیر کیف تصرفون سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ استفہام انکاری ہے۔ قولہ : مصدرٌ یعنی الاصباح، افعال کا مصدر ہے جس کے معنی دخول فی الصبح کے ہیں مگر یہاں یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ مراد نفس صبح ہے، مصدر بول کر مصدر کا اثر یعنی صبح مراد ہے، اور کو فیین کے نزدیک جاعل کے بجائے جَعَل ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک فعل کا عطف اسم پر جائز ہے۔ قولہ : عَلیٰ مَحَلِّ اللَیْلِ ، لیل کا محل جاعل کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : ھو حَالٌ مِنَ المُقَدَّرِ ، یعنی حسبان، یَجْریانِ مقدر سے حال ہے، اگر مفسر علام مقدر سے حال ہے کے بجائے مقدر سے متعلق ہے، فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ قولہ : قِنْوانٌ، یہ قِنْوٌ کی جمع ہے بمعنی خوشہ۔ تفسیر و تشریح گذشتہ آیات میں مشرکین کی ہٹ دھرمی اور حقائق و نتائج سے غفلت کا تذکرہ تھا، اور اب ان کاموں کا تذکرہ ہے جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے وہ ہے خدا تعالیٰ کی بےمثال علم وقدرت سے بیخبر ی، مذکورہ آیات میں حق تعالیٰ نے غافل انسان کے اس روگ کا علاج اس طرح فرمایا ہے کہ اپنے وسیع اور عظیم قدرت کے چند نمونے اور انسان پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک سلسلہ ذکر فرمایا جن میں ادنی غور کرنے سے ہر سلیم الفطرت انسان خالق کائنات کی عظمت اور بےمثال قدرت کا اور اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ عظیم الشان کارنامے ساری کائنات میں سوائے خدائے تعالیٰ کے کسی کی قدرت میں نہیں۔ اِنَّ اللہ فالق الحب والنویٰ ، اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بےمثال قدرت اور صناعی کے نمونے بیان فرمائے ہیں، دانہ اور گٹھلی جس کا شکار زمین کی تہ میں دبا دیتا ہے اس کو پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے، جبکہ زمین ایک، پانی ایک، کھاد ایک ہوتا ہے مگر جس قسم کے دانے اور گٹھلیاں ہوتی ہیں اس کے مطابق ہی اللہ مختلف قسم کے غلوں، پھلوں کے درخت پیدا فرما دیتا ہے جن کے پھلوں کے رنگ و بو و مزہ میں بین تفاوت ہوتا ہے، یہ خدا کی قدرت ہی کا کرشمہ ہے۔ مطلب یہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات غرضیکہ تمام موجودات کا نظام تکوینی و تخلیقی کلیۃً اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی دیوی دیوتا یا مزار و آستانہ کی طرف متوجہ ہونا کس درجہ کا حمق اور بےدانشی ہے۔ ! ! یہ عظیم الشان کا رخانہ حیات یہ نظام ارضی اور نظام فلکی یوں ہی کیف ما اتقق الل ٹپ نہیں چل رہا، اس کے قانون اور ضابطہ کے مطابق چل رہا ہے جو ہر قادر پر قادر ہے جس کی راہ ہر رکاوٹ سے خالی ہے، اور ساتھ ہی وہ ایسا علیم ہے کہ ہر علم و حکمت کا ابتداء وہی ہے۔ وہ پردہ شب سے نور صبح کو برآمد کرنے والا ہے، رات کی پر سکون کیفیت، سورج اور چاند کی نپی تلی گردش بےانتہاء مصلحتوں اور حکمتوں سے لبریز ہے اور ان کی شرح رفتار و مقدار سب اسی قادر مطلق کے دست قدرت میں ہے اس کی موجودگی میں کسی دیوی دیوتا یا کسی حاجت روا اور مشکل کشا کو فرض کرنا خرافات کی انتہاء ہے۔
Top