Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ [ وہ دانے اور گٹھلی کو شق کردیتا ہے وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی ہے جو مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے وہی اللہ ہے پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو ؟
دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا وہی ہے : 148: زر نظر آیت 94 سے آیت 108 تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور سب سے پہلے ربوبیت عالم اور زندگی و موت سے استدلال کیا گیا ہے اور فرمایا جا رہا ہے سب سے زیادہ نمایاں حقیقت نظام ربوبیت کی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے یعنی ہر وجود کی پرورش کا سروسامان جس طرح اور جس اسلوب پر کیا گیا ہے وہ ہر گوشے میں ایک ہی ہے اور ایک ہی اصل وقاعدہ رکھتا ہے۔ پتھر کا ایک ٹکٹا تمہیں گلاب کے سر سبز و شاداب اور عطر بیز پھول سے کتنا ہی مختلف دکھائی دے لیکن دونوں کی پرورش کا اصول واحوال پر نظر ڈالو گے تو صاف آجائے گا کہ دونوں کا ایک ہی طریقہ سے سامان پرورش ملا ہے دونوں ایک ہی طرح پالے پوسے جا رہے ہیں۔ انسان کا بچہ ہو یا درخت کا بیج و پودا تمہاری نظروں میں کتنی بےجوڑ چیزیں ہیں ؟ لیکن اگر ان کی نشونما کے طریقوں کا کھوج لگاؤ کے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانیت نے دونوں کو ایک رشتے سے منسلک کردیا ہے۔ پتھر کی چٹان ہو یا پھول کی کلی۔ انسان کا بچہ ہو یا چیونٹی کا انڈا سب کے لئے پیدائش ہے اور قبل اس کے کہ پیدائش ظہور میں آئے سامان پرورش مہیا ہوجاتا ہے پھر طفولیت کا دور ہے اور اس دور کی ضروریات ہیں۔ انسان کا بچہ بھی اپنی طفولیت رکھتا ہے۔ درخت کے مولود نباتی کے لیے بھی طفولیت ہے اور تمہاری چشم ظاہر بیں کے لئے کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو لیکن پتھر کی چٹان اور مٹی کا تودہ بھی اپنی اپنی طفولت رکتا ہے پھر طفولیت رشد وبلوغ کی طرف بڑھتی ہے اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اس کی روز افزوں حالت کے مطابق یکے بعد دیگرے سامان پرورش میں بھی تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور پھر جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف وانحطاط کا دور شروع ہوجاتا ہے پھر اس ضعف وانحطاط کا خاتمہ بھی سب کے لئے ایک ہی طرح ہے کسی دائرے میں اس کو مرجانا کہتے ہیں ، کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا اور بلاشبہ ان کی عمر کی اوسط میں بہت بڑا فرق ہے لیکن اس سے اصول مختلف نہیں ہو سکتا۔ اس طرح الفاظ متعدد ہوئے مگر حقیقت میں تعدد نہیں ہوا یہی بات زیر نظر آیت میں سمجھائی گئی۔ فرمایا یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی کو شق کرتا ہے اور اس سے ہرچیز کا درخت پیدا کرتا ہے۔ وہ زندہ کو مردہ چیز سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ اشیاء سے نکالنے والا ہے۔ ہاں ! وہی تمہارا خدا ہے پھر تم اس سے روگردانی کر کے کدھر بہکے جا رہے ہو ؟ ہاں ! مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کی مثال مفسرین نے انڈا سے مرغی اور مرغی سے انڈا کی دی ہے۔ ان کے خیال میں ممکن ہے کہ انڈا مردہ ہو لیکن ایسا نہیں ہے پھر اس زندگی اور موت کا مطلب اور اس سے تفہیم کیا ہوئی ؟ اپنی سمجھ میں اس کی مثال آزر سے ابراہیم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) سے ان کا نافرمان بیٹا مراد لیا جاسکتا ہے کہ اللہ نے کس طرح ایک کفر کی موت مرے ہوئے مردہ سے اسلامی زندگی کا ایک زندہ انسان جس نے کتنی انسانیت کو باذن اللہ زندہ کر دکھایا اور ایک زندہ یعنی اسلامی زندگی سے زندہ اور زندہ کردینے والے انسان نوح (علیہ السلام) سے ایک کفر کی موت مرا ہوا بیٹا پیدا کر دکھایا اور اس طرح قوموں کی زندگی اور موت کا قانون بھی بنا دیا۔ زندہ قومیں کس طرح مر جاتی ہیں اور پھر کتنی مردہ قوموں میں وہ زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اور اس طرح باذن اللہ کر دکھانے والے انسانوں کے ذمہ بھی اس نے یہ کام لگا دیا ہے جو پہلے انبیائے کرام کیا کرتے تھے اور آج بھی اللہ کے وہ بندے اگرچہ وہ انبیاء نہیں تاہم وہ وراثۃ لانبیاء ضرور ہیں۔ اس لئے اس کام کو سر انجام دے رہے ہیں۔
Top