Bayan-ul-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
یقیناً اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے وہ نکالتا ہے زندہ کو مردہ میں سے اور وہی نکالنے والا ہے مردہ کو زندہ میں سے یہی تو ہے اللہ (اس کو پہچانو) لیکن تم کدھر الٹے جا رہے ہو
آیت 95 اِنَّ اللّٰہَ فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط۔ عالم خلق کے اندر جو امور اور معاملات معمول کے مطابق وقوع پذیر ہو رہے ہیں ‘ یہاں ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی زمین میں دبائی گئی ‘ کچھ دیر کے بعد وہ گٹھلی پھٹی اور اس میں سے دو پتے نکلے۔ اسی طرح پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ خود بخود ہوتا نظر آرہا ہے ‘ مگر حقیقت میں یہ سب کچھ ان فطری قوانین کے تحت ہو رہا ہے جو اللہ نے اس دنیا میں فزیکل اور کیمیکل تبدیلیوں کے لیے وضع کردیے ہیں۔ اس لیے اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر شیخ عبدالقادر جیلانی رض نے اپنے وصایا میں کیا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے بچے اس حقیقت کو ہر وقت مستحضر رکھنا کہ لَا فاعلَ فی الحقیقۃ ولا مؤثِّر اِلّا اللّٰہ یعنی حقیقت میں فاعل اور مؤثر اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اشیاء میں جو تاثیر ہے وہ اسی کی عطا کردہ ہے ‘ اسی کے اذن سے ہے۔ تم کسی فعل کا ارادہ تو کرسکتے ہو لیکن فعل کا بالفعل انجام پذیر ہونا تمہارے اختیار میں نہیں ہے ‘ کیونکہ ہر فعل اللہ کے حکم سے انجام پذیرہو تا ہے۔
Top