Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بیشک اللہ ہی ہے پھاڑ نکالنے والا دانے اور گھٹلی کو، وہی نکالتا ہے، زندہ کو مردہ سے اور اسی کا کام ہے مردہ کو نکالنا زندہ سے، یہ ہے اللہ پھر تم لوگ کدھر الٹے پھیرے جا رہے ہو ؟
180 ایک ایک دانہ توحید خداوندی کا گواہ ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی ہے پھاڑ نکالنے والا دانے اور گٹھلی کو۔ سو زمین کے نیچے سے اس طرح دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر اس سے پودا نکالنا یہ اسی وحدہ لاشریک کی کارستانی ہے۔ اس سے اس کی بےپایاں قدرت کا بھی پتہ چلتا ہے اور بےانتہا رحمت و عنایت کا بھی ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور جب اس کی اس قدرت و عنایت میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو یہ اسی وحدہ لاشریک کی قدرت اور اسی کی حکمت ہے کہ وہ ایک ایک بیج اور ایک ایک گٹھلی کے اندر اس طرح اگنے اور پھوٹ نکلنے کی صلاحیتیں ودیعت فرماتا ہے۔ اور پھر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے وہ آسمان و زمین، ابرو ہوا، سردی و گرمی اور خزاں و بہار وغیرہ سب کو حکم فرماتا ہے کہ وہ سب مل کر اس کی پرورش اور نشوو نما میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ سو اس طرح اس زمین میں نشو و نما پانے والا ایک ایک دانہ اس کے کمال قدرت اور اس کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ غفلت کا مارا انسان اس بارے سوچتا اور غور نہیں کرتا۔ اس لیے وہ اس سے کوئی درس عبرت نہیں لیتا ۔ والعیاذ باللہ - 181 اسی کی شان ہے زندہ کو نکالنا مردہ سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے۔ جیسے طرح طرح کے نباتات کو مختلف بیجوں، گٹھلیوں اور دانوں سے۔ اور قسما قسم کے حیوانات اور انسانوں کو مادئہ تولید کے ان خوردبینی جرثوموں سے جو بیشمار بےجان غذاؤں سے محیر العقول طریقوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ سو یہ سب کچھ جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، اسی قادر مطلق کی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ اور عنایت شاملہ کا مظہر اور زندہ ثبوت ہے۔ اور جب ان میں سے کسی بھی چیز میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے کے یہ حکمتوں بھرے اور حیرت انگیز مناظر و مظاہر اس کائنات میں ہر چہار سو پھیلے بکھرے موجود ہیں اور اپنی زبان حال سے پکار پکار کر دعوت غور وفکر دے رہے ہیں کہ اس طرح انسان اپنے سراغ زندگی کو پا سکے ۔ { فہل من مد کر } ۔ " تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟ " ۔ مگر غفلت کی ماری اور بطن وفرج کی پجاری دنیا کو اس کی توفیق کہاں اور کیسے مل سکتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس بارے کچھ مزید تفصیل اگلے حاشیے میں بھی آرہی ہے ۔ والحمد للہ - 182 اور اسی کا کام ہے مردہ کو نکالنا زندہ سے : جیسے بیشمار نباتات سے ان کے بیجوں اور گٹھلیوں کو، جو ان کے جملہ نوعی خصائص کو اپنے اندر سمیٹے ہوتی ہیں، جو اس کی قدرت بےنہایت اور عطائے بےغایت کا ایک اور عظیم الشان مظہر اور ثبوت ہے۔ اور جیسے نوح جیسے نبی کے گھر کنعان جیسے کافر بیٹے کو اور آزر جیسے کافر وبت پرست اور بت گر و بت فروش پنڈت کے گھر ابراہیم جیسے جلیل القدر پیغمبر اور ابو الموحدین کو پیدا کرنا۔ اور عالم کے گھر جاہل اور جاہل کے گھر عالم کا جنم لینا وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سب اس کی بےنہایت قدرت و حکمت اور شان بےنیازی کے عظیم الشان اور گوناگوں مظاہر ہیں۔ سو یہ ارشاد خداوندی بےجان چیزوں سے زندگی کے اظہار اور پھر زندگی کے اور موت اور فنا کے طاری ہونے کی ایک جامع تعبیر ہے جس کا مشاہدہ ہم اس کائنات کے ہر گوشے میں کرتے ہیں اور برابر و ہمیشہ کرتے ہیں۔ مگر کوئی درس نہیں لیتے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو جگہ جگہ بےجان گٹھلیوں اور بیجوں سے طرح طرح کے ہرے بھرے پودے اور قسما قسم کے پھل غلے اور باغات پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وقت آنے پر ان سب پر مردنی چھا جاتی ہے اور بالآخر وہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اسی چیز کا مشاہدہ ہم انسانوں اور حیوانوں کی زندگیوں میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوموں اور ملتوں کے اندر بھی زندگی و موت اور عروج وزوال کی یہی داستان دوہرائی جاتی ہے اور بار بار دوہرائی جاتی ہے۔ مگر دنیا ہے کہ اس بارے سوچنے اور غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور وہ حیوان بن کر بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر بطن وفرج کے تقاضوں کی تکمیل اور ان کی پوجا پاٹ میں لگی ہوئی ہے۔ اس سے آگے سوچنے کی وہ روادار ہی نہیں ۔ الا ما شاء اللہ والعیاذ باللہ جل وعلا - 183 کفر و شرک سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ہے اللہ تو پھر تم لوگ کدھر پھیرے اور اوندھے کیے جا رہے ہو اور تمہاری مت کہاں ماری جا رہی ہے جو تم ایسی ایسی صفات اور قدرتوں والے، اپنے خالق ومالک حقیقی اور کار ساز مطلق ربِّ ذوالجلال کے سوا اوروں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مان رہے ہو ۔ { وَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا } ۔ یہاں پر { تو فکون } کا جو لفظ استعال فرمایا گیا ہے اس میں کئی بڑے اہم درس ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ " اِفک " سے مشتق و ماخوذ ہے۔ جسکے معنیٰ الٹا کرنے اور اوندھا کردینے کے آتے ہیں۔ سو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم لوگوں کی مت کہاں ماری جاتی ہے اور تم کیسے اوندھے ہوئے جارہے ہو۔ سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کفر و شرک سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے اور اس کی کھوپڑی الٹی اور اوندھی ہو کر رہ جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسری اہم بات اس میں یہ ہے کہ یہاں پر صیغہ { تو فکون } یعنی مضارع مجہول کا استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ ہے کہ " تم لوگ کہاں الٹے پھیرے جاتے ہو "۔ یعنی ان کو الٹا پھیرنے والے کوئی اور لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ان کی نکیل ہے۔ وہی انکے گرو ان کو اپنی مرضی پر چلا رہے ہیں۔ سو ایسے ہی گرو ہوتے ہیں جو عوام کالانعام کو اندھا اور اوندھا بنا کر اپنے پیچھے چلاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top