Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
بلکہ یہ تو قیامت کو ہی جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے
11۔ 13:۔ مشرکین مکہ اللہ کے رسول کی تنگدستی پر طعن جو کرتے تھے ‘ اوپر اس کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ‘ ان لوگوں کی یہ طعن کی باتیں معجزہ کی خواہش کے طور پر نہیں بلکہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے اور حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کے یہ لوگ منکر ہیں ‘ اس لیے عقبیٰ کی بہتری کو یہ لوگ طعن اور مسخراپن کی باتوں میں اڑا دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کے لیے دوزخ کی آگ کو خوب دہکا کر تیار کر رکھا ہے ‘ صحیح سند سے ترمذی میں ابوہریرہ ؓ 1 ؎ سے روایت ہے ‘ کہ دوزخ کی آگ میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرح کی بینائی کی قوت پیدا کی ہے جس سے وہ مشرکوں ‘ ظالموں ‘ مصوروں کو دیکھ کر قیامت کے دین پہچان لے گی ‘ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ کی آگ گنہگاروں کو دیکھتے ہی جھنجھلانا اور چلانا شروع کر دیوے گی ‘ اس حدیث سے دوزخ کے دن گنہگاروں کو دیکھتے ہی پہچان لے گی ‘ یہ دوزخ کا جھنجھلانا اس وقت ہوگا جس وقت اس کو ستر ہزار نکیلیں لگا کر محشر کے میدان میں لایا جائیگا جس کا ذکر عبداللہ بن مسعود کی صحیح مسلم کی روایت 2 ؎ میں ہے ‘ سورة الحاقہ میں آوے گا کہ ایسے لوگوں کے گلے میں طوق ڈالا جاوے گا اور ستر گز کی ایک زنجیر میں ان کی جماعت کو جکڑا جا کر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا ‘ اس سے مَکَانًا ضَیِّقًا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ زنجیر میں جکڑ دیئے جانے کے سبب سے ایسے لوگوں کی جماعت کی جماعت دوزخ کی تھوڑی سی جگہ میں پڑی رہے گی ‘ پھر فرمایا دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے ایسے لوگ بہت کچھ چلاویں گے اور پچتاویں گے مگر بےوقت کا چلانا اور پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب سب کی آنکھوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے اس جہاں کو پیدا کردیا تو جو لوگ دوبارہ پیدا کئے جانے کے منکر ہیں وہ بڑے نادان ہیں کیونکہ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ‘ کہ جو کام ایک دفعہ کیا جا چکا ‘ اس کے پھر دوبارہ کئے جانے کا انکار خلاف عقل ہے آیتوں میں جن منکرین حشر کا ذکر ہے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی نادانی کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 386 باب التصاویر ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب صنقہ النار رواہلہا )
Top