Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
وہ (خدا) بہت بابرکت ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر (چیزیں) بنا دے (یعنی) باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں نیز تمہارے لئے محل بنا دے
10:۔ تفسیر سفیان ثوری 2 ؎ اور تفسیر ابن ابی 3 ؎ حاتم وغیرہ میں خیثمہ ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل ہے کہ مشرکین مکہ نے جب آنحضرت ﷺ پر تنگدستی اور فقر وفاقہ کی طعن کی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے پاس پیغام بھیجا تھا ‘ کہ اے رسول اللہ کے تم اگر دنیا کی تنگدستی سے گھبراتے ہو تو تمام روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں اللہ کے حکم سے تمہارے حوالہ ہوجاویں گی اور دنیا میں یہ خوشحالی دینے کے بعد تمہارے عقبیٰ کے مرتبہ میں اللہ تعالیٰ کچھ کمی نہ کرے گا ‘ اور اگر تمہاری مرضی ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا وعقبیٰ کی خوبی کا ذخیرہ تمہارے لیے عقبیٰ ہی میں رکھے گا ‘ دنیا چند روزہ ہے ‘ اس کو ہر طرح سے کاٹ دو ‘ آنحضرت ﷺ نے اس پیغام کے جواب میں فرمایا کہ دنیا ہر طرح سے کٹ جاوے گی ‘ مجھ میں عقبیٰ میں ہر طرح کی خوبی کا ذخیرہ درکار ہے ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ خثیمہ بن الحارث قبیلہ اوس میں کے انصاری صحابہ میں ہیں ‘ احد کی لڑائی میں ان کی شہادت ہوئی ہے ‘ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگرچہ لوگوں کی خواہش دنیا کے عیش و آرام کی طرف مائل ہے اور ان کی خواہش کا پورا کرنا اللہ تعالیٰ چاہے تو اچھے لوگوں کے واسطے دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیوے لیکن دنیا کی خوبی اچھے لوگ چاہتے ہی نہیں بلکہ دنیا سے بچتے رہتے ہیں دنیا پر تو وہی لوگ مفتون ہیں جو عقبیٰ کے منکر ہیں اور ان کا مدار فقط دنیا کی زیست پر ہے اور عاقبت میں ان کے لیے دوزخ ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جس کسی کو جس قدر آخرت کا یقین زیادہ ہے ‘ اسی قدر وہ دنیا سے بیزار ہے ‘ پھر آنحضرت ﷺ کو آخرت کا جس قدر یقین تھا وہ بیان سے باہر ہے ‘ اسی واسطے باوجود پیغام الٰہی کے آپ نے دنیا کی خوشحالی کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ یہ بات معلوم تھی کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ‘ ان کو وہ دنیا میں پھنسانا پسند نہیں فرماتا چناچہ معتبر سند سے طبرانی ‘ صحیح ابن حبان میں رافع بن خدیج سے اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری سے جو روایتیں 1 ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اس کو دنیا سے اس طرح بچاتا ہے جس طرح کوئی رشتہ دار اپنے بیمار رشتہ دار کو بد پرہیزی سے بچاتا ہے ‘ معتبر سند سے طبرانی ‘ صحیح ابن حبان میں رافع بن خدیج سے اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری سے بیمار رشتہ دار کو بد پرہیزی سے چاتا ہے ‘ معتبر سند سے ترمذی میں ابوامامہ 2 ؎ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے پہاڑوں کو سونے کے پہاڑ بنا کر ان کو میرے ساتھ رہنے کا حکم میری مرضی پر منحصر رکھا تھا لیکن میں نے اپنی مرضی یہ ظاہر کی کہ یا اللہ مجھ کو ایک دن کھانا ملے اور ایک دن فاقہ ہو تاکہ شکر اور صبر دونوں کے اجر کا مجھ کو موقع ملے۔ اوپر خیثمہ بن الحارث کی روایت سے شان نزول جو بیان کی گئی ‘ اس کو ان روایتوں سے پوری تقویت ہوجاتی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے ‘ جس میں وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی تمام عمر میں کبھی دو دن ایسے نہیں گزرے ‘ جن میں پے درپے آپ ﷺ نے جو کی روٹی پیٹ بھر کر کھائی ہو ‘ اس حدیث سے اللہ کے رسول ﷺ کی تمام عمر کے کھانے کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ اسی طرح کی صحیح حدیثیں آپ کے لباس کے باب میں ہیں۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 310 ج 3۔ ) (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 63 ج 5۔ ) (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 132 ج 4 ) (2 ؎ ایضا ص 153 ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبی ﷺ ۔ )
Top