Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ”اُس گھڑی“ 20 کو جھُٹلا چکے ہیں 21۔۔۔۔ اور جو اُس گھڑی کو جھُٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے
سورة الْفُرْقَان 20 اصل میں لفظ " السّاعۃ " استعمال ہوا ہے۔ ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور ال اس پر عہد کا ہے، یعنی وہ مخصوص گھڑی جو آنے والی ہے، جس کے متعلق ہم پہلے تم کو خبر دے چکے ہیں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت خاص کے لیے بولا گیا ہے جبکہ قیامت قائم ہوگی، تمام اولین و آخرین از سرنو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے، سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے جزا یا سزا دے گا۔ سورة الْفُرْقَان 21 یعنی جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی کسی قابل لحاظ بنیاد پر قرآن کے جعلی کلام ہونے کا شبہ ہے، یا ان کو درحقیقت یہ گمان ہے کہ جن آزاد کردہ غلاموں کے یہ نام لیتے ہیں وہی تم کو سکھاتے پڑھاتے ہیں، یا انہیں تمہاری رسالت پر ایمان لانے سے بس اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، یا وہ تمہاری تعلیم حق کو مان لینے کے لیے تیار تھے مگر صرف اس لیے رک گئے کہ نہ کوئی فرشتہ تمہاری اردلی میں تھا اور نہ تمہارے لیے کوئی خزانہ اتارا گیا تھا۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ آخرت کا انکار ہے جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملے میں بالکل غیر سنجیدہ بنادیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، اور تمہاری معقول دعوت کو رد کرنے کے لیے ایسی ایسی مضحکہ انگیز حجتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہن اس تخیل سے خالی ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں انہیں خدا کے سامنے جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس چار دن کی زندگی کے بعد مر کر سب کو مٹی ہوجانا ہے۔ بت پرست بھی مٹی ہوجائے گا اور خدا پرست بھی اور منکر خدا بھی۔ نتیجہ کسی چیز کا بھی کچھ نہیں نکلنا ہے۔ پھر کیا فرق پڑجاتا ہے۔ مشرک ہو کر مرنے اور موحد یا ملحد ہو کر مرنے میں۔ صحیح اور غلط کے امتیاز کی اگر ان کے نزدیک کوئی ضرورت ہے تو اس دنیا کی کامیابی و ناکامی کے لحاظ سے ہے۔ اور یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کسی عقیدے یا اخلاقی اصول کا بھی کوئی متعین نتیجہ نہیں ہے جو پوری یکسانی کے ساتھ ہر شخص اور ہر رویے کے معاملے میں نکلتا ہو۔ دہریے آتش پرست، عیسائی، موسائی، ستارہ پرست، بت پرست، سب اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔ کوئی ایک عقیدہ نہیں جس کے متعلق تجربہ بتاتا ہو کہ اسے اختیار کرنے والا، یا رد کردینے والا اس دنیا میں لازماً خوش حال یا لازماً بد حال رہتا ہو۔ بد کار اور نیکو کار بھی یہاں ہمیشہ اپنے اعمال کا ایک ہی مقرر نتیجہ نہیں دیکھتے۔ ایک بد کار مزے کر رہا ہے اور دوسرا سزا پا رہا ہے۔ ایک نیکو کار مصیبت جھیل رہا ہے تو دوسرا معزز و محترم بنا ہوا ہے۔ لہٰذا دنیوی نتائج کے اعتبار سے کسی مخصوص اخلاقی رویے کے متعلق بھی منکرین آخرت اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ وہ خیر ہے یا شر ہے۔ اس صورت حال میں جب کوئی شخص ان کو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کی طرف دعوت دیتا ہے تو خواہ وہ کیسے ہی سنجیدہ اور معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے، ایک منکر آخرت کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرے گا بلکہ طفلانہ اعتراضات کر کے اسے ٹال دے گا۔
Top