Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
بلکہ ان لوگوں نے اس گھڑی کو جھٹلا دیا ہے اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے
بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ قف وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا۔ (الفرقان : 11) (بلکہ ان لوگوں نے اس گھڑی کو جھٹلا دیا ہے اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ) اَلسَّاعَۃ … ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور اس پر ال عہد کا ہے۔ یعنی وہ مخصوص گھڑی جو قیامت کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس لفظ کو قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک مغالطہ آنحضرت ﷺ کی غربت اور دنیوی مال و اسباب میں کمی کے حوالے سے قریش جس طرح تمسخر اڑاتے تھے اور دولت و ثروت اور دنیوی کامرانیوں کو وہ جس طرح بڑائی کی علامت اور اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اس آیت کریمہ میں ان کے اس مغالطے کو دور کیا گیا یا اس کی تردید فرمائی گئی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ جس طرح آنحضرت ﷺ کو طعن وتشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں اور آپ ﷺ پر عجیب و غریب اعتراضات کررہے ہیں اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ واقعی آپ ﷺ پر ایمان نہ لانے کے یہی حقیقی اسباب ہیں اور یہی وہ موانع ہیں جس کی وجہ سے وہ اسلام کے قریب آنے سے گریزاں ہیں۔ فرمایا کہ اصل بات یہ نہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ وہ آخرت کا انکار کرچکے ہیں جبکہ آپ کی دعوت کا تمام تر دارومدار آخرت کو تسلیم کرنے پر ہے۔ کیونکہ جو شخص آخرت کو دارالجزاء نہیں مانتا اور وہاں جوابدہی کے تصور کو قبول نہیں کرتا اور دنیا کو دارالعمل نہیں سمجھتا اور اسی زندگی کو اصل زندگی اور اسی زندگی کے خاتمے کو حقیقی فنا سمجھتا ہے اسے کبھی عیش و عشرت کی زندگی اور من مرضی کے طوراطوار، دولت و ثروت کی پوجا، طاقت کی حکمرانی اور لذت کی آرزو سے دستبردار ہونے کے لیے آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ آخر اپنی مرضی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی مرضی کو کیسے اختیار کرسکتا ہے۔ اور وہ خودغرضی اور ہوس کا پتلا ہو کر قربانی اور ایثار کا راستہ کیسے اختیار کرسکتا ہے۔ تو جب تک یہ لوگ آخرت کو قبول نہیں کرتے اس وقت تک کسی اور تبدیلی کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود کوئی بھی ہوش مند اور عقل مند شخص اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ جس طرح آخرت کا منکر عقلی اور اخلاقی دلائل کو قیامت کے وجود کے لیے قطعی نہیں سمجھتا اسی طرح وہ آخرت کے انکار کو بھی کسی دلیل سے قطعی اور حتمی قرار نہیں دے سکتا۔ اولاً تو اقرار و انکار کے دونوں پلڑے برابر نہیں لیکن اگر عقل پر ہی اعتماد کرتے ہوئے دونوں کو برابر بھی سمجھ لیا جائے تو تب بھی ایک سوال ایسا ضرور ہے جو عقل مند آدمی کو آخرت کے تصور پر غور کرنے کے لیے مجبور کردیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر واقعی آخرت نہ ہوئی اور ہماری یہی موت آخری اور مکمل موت ثابت ہوئی تو انکار کرنے والا اور اقرار کرنے والا دونوں یکساں ہوں گے۔ نہ اقرار کرنے والے کا اقرار اس کے کام آئے گا اور نہ انکار کرنے والے کا انکار اس کے لیے کسی نقصان کا باعث ہوگا لیکن اگر یہ بات واقعہ بن کر سامنے آگئی کہ صور پھونکا گیا، قیامت برپا ہوگئی اور سب لوگ جوابدہی کے لیے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کردیئے گئے۔ اب جس شخص نے آخرت کا اقرار کرکے اور دنیا کو دارالعمل سمجھ کر آخرت کے لیے تیاری کی ہوگی وہ تو وہاں بچ جائے گا لیکن جو آخرت کے انکار پر اڑا رہا وہ پکڑا جائے گا۔ چناچہ خالصتاً عقل کو بنیاد بناتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جو شخص قیامت اور آخرت کی تکذیب کرتا اور اس کا انکار کرتا ہے ہم نے اس کے لیے بھڑکنے والی آگ تیار کر رکھی ہے۔ وہ دنیا میں چاہے دولت و ثروت کے کیسے انبار رکھتا ہو اور کتنی بڑی حکومت و ریاست کا مالک ہو، وہ اس دوزخ کے عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔
Top