Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
پھر جب ایسا ہوا کہ جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اسے انہوں نے بھلا دیا تو ہم نے ان پر ہر طرح کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ وہ خوشیاں منانے لگے لیکن اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا پس ناگہاں وہ ناامید ہو کر رہ گئے
جو نصیحت ان کو کی گئی تھی اس کو انہوں نے بھلا دیا اور چیخنے کی بجائے تالیوں پر لگ گئے : 67: نصیحت تو یہ تھی کہ ان ذلیل حرکتوں سے باز آجاؤ اور آنے والے عذاب کو بھول نہ جاؤ ۔ اس غرض کے لیے ان کو ” عذاب ادنیٰ “ میں مبتلا کیا تھا لیکن جونہی انہوں نے اس عذاب سے نجات حاصل کی تو بجائے اس کے کہ اپنے مالک حقیقی کے سامنے رو رو کر اور چیخ چیخ کر اپنی غلطیوں کی معافی طلب کرنے کے لئے عرضیاں پیش کرتے انعامات الٰہی کے ملنے کے بعد جو ان پر بطور آزمائش کئے جا رہے تھے انہوں نے ناچنا اور تالیاں بجانا شروع کردیں۔ جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ زیر نظر آیت میں اس بات پر عام انسانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ دنیا میں کسی شخص یا جماعت پر عیش و عشرت کی فراوانی دیکھ کر دھوکا نہ کھائیں کہ یہی لوگ صحیح راستہ پر ہیں اور یہی کامیاب زندگی کے مالک ہیں بلکہ بسا اوقات یہ حالت ان مبتلائے عذاب نافرمانوں کی بھی ہوتی ہے جن کو سخت سزا میں دفعتاً پکڑنا طے کرلیا جاتا ہے اور عام محاورہ بھی ہے کہ جب موت قریب آتی ہے تو سب بیماریاں چھوڑجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بس اب صحت آگئی مگر کچھ دیر نہیں لگتی کہ پیشانی پر پسینہ آنا شروع ہوجاتا ہے اور ناک ٹھنڈی پڑجاتی ہے اور اگر کوئی دوسرا آنکھیں بند نہ کرے تو وہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور لوگ اس کو موت سے تعبیر کرتے ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ کسی شخص پر نعمت و دولت برس رہی ہے حالانکہ وہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر جماہوا ہے تو سمجھ لو کہ اس کے ساتھ استدراج ہو رہا ہے یعنی اس کی عیش و عشرت اس کو سخت عذاب میں پکڑے جانے کی ایک واضح علامت ہے۔ (رواہ احمد عن عقبہ بن عامر) عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو باقی رکھنا اور بڑھانا چاہتا ہے تو دہ وصف ان میں پیدا کردیتا ہے۔ ایک ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی دوسرے عفت و عصمت یعنی خلاف شریعت چیزوں کے استعمال سے پرہیز اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک و برباد کرنا چاہتا ہے تو ان پر خیانت کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی وہ اپنی خیانتوں اور بد عملیوں کے باوجود دنیا میں کامیاب نظرآتے ہیں۔ “ (ابن جریر طبری ؓ اس مضمون کو علامہ اقبال ؓ نے اس طرح نظم فرمایا۔ ؎ آ میں تجھ کو بتاؤں کی تقدیر امم کیا ہے۔ شمشیرو سناں اول ، طاؤس و رباب آخر وہ ناچنے اور تالیاں بجانے میں مصروف تھے کہ پکڑے گئے اور ناامید ہو کر رہ گئے : 68: آیت کے اس حصہ میں بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا کہ جاہ و ثروت ، خوشحالی اور اقبال مندی کو صداقت و حقانیت کی دلیل سمجھ لینا تمام تر حماقت سقاہت ہے۔ اس کا لازمی تعلق حق و صداقت سے ہرگز نہیں گو اکثرحالات میں اہل حق کو یہ دنیوی سر بلندیاں بھی بہ طور انعام مل جاتی ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ یہ اقبال مندیاں انہیں لوگوں کے حصے میں آتی ہیں جو جاہ و حشمت کی غفلت و مستی میں پڑ کر کفر میں بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں اور ان کو پکڑے جانے کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہوتا وہ بڑے اطمینان کے ساتھ اس بدمستی میں پڑے ہوتے ہیں کہ شکاری جانور کی طرح فوراً دبوچ لئے جاتے ہیں جس سے اردو محاورہ میں ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں اور اس طرح وہ غایت یاس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ زیر نظر آیت میں لفظ ” مُّبْلِسُوْنَ “ استعمال ہوا جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا بلس اور ابلاس کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ” حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ “ ” خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہوجانا۔ “ ” رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہوجانا۔ “ ” ہر طرف سے ناامید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ “ اور اس کا ایک پہلو مایوس ونامرادی کی وجہ سے ” برا فروختہ ہوجانا۔ “ بھی ہے۔ اس وجہ سے شیطان کو ” ابلیس “ کا نام دیا گیا اور اسی طرح اس کے نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یا س اور نامرادی کی بناء پر اس کا زخمی تکبر اس قدر برانگیختہ ہوگیا کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھوکر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تلا ہوا ہے۔ بس وہ یاس و حسرت کے اس عالم میں پڑجاتے ہیں جہاں اپنی جان خطرہ میں دیکھ کر دوسروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔
Top