Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
پھر جب وہ اس کو بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انھیں دی گئی تھیں، ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا تو اچانک وہ ناامید تھے۔
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ۔۔ : جب انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے فرامین کو فراموش ہی کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت قائم کرنے کے لیے ان کی رسی دراز کردی اور ان پر ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے، پھر جب وہ عیش و آرام میں پوری طرح مگن ہوگئے تو اللہ نے اچانک انھیں پکڑ لیا، یعنی اچانک ایسا عذاب آیا کہ وہ اپنا تمام عیش و آرام بھول گئے اور انھیں بچنے کی کوئی امید نہ رہی اور اسی یاس اور ناامیدی کی حالت میں تباہ و برباد کردیے گئے۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ جب سختی اور مصیبت آئے تو اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر برے کاموں سے توبہ کرلے، ورنہ غفلت بڑھتی جائے گی اور اچانک ایسی سخت پکڑ ہوگی کہ توبہ کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ ”مُّبْلِسُوْنَ“ یہ ”مُبْلِسٌ“ کی جمع ہے، یعنی جس کی امید ختم ہوجائے۔ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی کے باوجود کوئی قوم دنیوی مال کے لحاظ سے نہایت ترقی یافتہ اور خوش حال ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے، نہیں، بلکہ یہ استدراج ہے اور ان کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (178)۔
Top