Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
پھر جب وہ اس چیز کو جس کی نہیں نصیحت کی جاتی تھی وہ بھلائے رہے تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب وہ اس پر جو انہیں ملا تھا اترا گئے تو ہم نے ان کو دفعۃ پکڑ لیا اور وہ دھک سے رہ گئے،69 ۔
69 ۔ (ہر طرح مایوس ہوکر) یہاں اس حقیقت کا بیان ہے کہ جاہ و ثروت، خوشحالی اوراقبال مندی کو صداقت سے ہرگز نہیں، گو اکثر حالات میں مطیعین اور اہل حق کو یہ دنیوی سربلندیاں بھی بہ طور انعام مل جاتی ہیں۔ (آیت) ” نسوا “۔ نسیان سے یہاں وہ عدم حافظہ کا عمل مراد نہیں جو غیراختیاری ہے، بلکہ ترک اختیاری مراد ہے، نسو بمعنی ترکوا عن ابن عباس وابن جریج وھو قول ابی علی (قرطبی) (آیت) ” ماذکروا بہ “۔ یعنی ایمان و اطاعت کے مطالبات جو بار بار یعنی ہر قسم کے اسباب نعمت انہیں مہیا ہوگئے۔ ای من النعم والخیرات ای کثرنا لھم ذلک (قرطبی) مطلب یہ ہوا کہ پہلے سختیوں میں اور اب آسانیوں میں دونوں طرح ہم نے انہیں رکھ دیکھا کہ اب بھی وہ فطرت سلیم سے کام لے کر کسی طرح راہ حق پر آجائیں۔ وہ کسی طرح بھی نہ آئے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ انہی استدراجی نعمتوں کی ایک نظیر اس شخص کا حال ہے جس کا ذوق وحال باوجود معصیت وفسق کے باقی رہے، یہ اس کے حق میں استدراج ہے۔ وہ جاہل اس پر فخر کرتے ہیں کہ دیکھو ہماری نسبت کیسی قوی ہے۔ (آیت) ” اذا فرحوا بما اوتوا “۔ یعنی دنیوی جاہ و حشمت کی غفلت ومستی میں پڑکر ان کا کفر خوب بڑھ گیا۔ (آیت) ” فاذا ھم مبلسون “۔ گویا اردو محاورہ میں ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، اور وہ غایت یاس میں مبتلا ہوگئے۔ ایسوں میں کل خیر قال الفراء المبلس الذی انقطع رجاء ہ وقال الزجاج المبلس شدید الحسرۃ الحزین (کبیر)
Top