Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
تو جب انہوں نے فراموش کردیا اس چیز کو جس سے ان کو یاد دہانی کی گئی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ اس چیز پر اترانے لگے جو انہیں دی گئی تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا، وہ بالکل ہک دک رہ گئے۔
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ الایہ۔ ماذکرو بہ کے معنی ہوں گے جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاد دہانی کی گئی۔ یہاں اس سے اشارہ اسی باساء و ضراء یعنی مالی جسمانی مصائب کی طرف ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لیے مبتلا کیا کہ وہ سمجھیں کہ اگر انہوں نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو ان تنبیہات کے بعد اب آگے فیصلہ کن عذاب ہے کا مرحلہ ہے لیکن اس سے یہ سبق لینے کے بجائے انہوں نے ان کے گزر جانے کے بعد ان کو نظر انداز کردیا کہ قوموں کی زندگی میں اس طرح کے حوادث تو پیش آیا ہی کرتے، قحط، سیلاب، طوفات، وبا اور امراض سے کس قوم کو سابقہ نہیں پیش آیا ہے۔ قد مس آباءنا الضرا والسرا 4۔ اس طرح کے نرم و گرم حالات تو ہمارے اگلوں کو بھی پیش آ چکے ہیں۔ پھر یہ کیوں فرض کیا جائے کہ یہ کسی شخص کی تکذیب کا نتیجہ ہے۔ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً ، اب یہ مذکورہ بالا سنت اللہ کا اگے کا مرحلہ بیان ہورہا ہے جس کو قرآن کے دوسرے مقامات میں ‘ امہال ’ یعنی ڈھیل دینے سے تعبیر فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب پیغمبر کی تکزیب کرنے والے خدا کی تنبیہات کو نظر انداز کردیتے ہیں تو خدا ان کی سی دراز کردیتا ہے، ان کی تمام مطلوبات کے دروازے ان پر کھول دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی کامیابیوں پر مگن ہونے، اترانے اور اکڑنے لگتے ہیں۔ یہ وقت ان کے پیمانہ کے لبریز ہوجانے کا ہوتا ہے۔ اس وقت خدا دفعۃً ان کو پکڑتا ہے پھر وہ بالکل مایوس اور ششدر ہو کے رہ جاتے ہیں۔ ‘ ابلس ’ کے لفظ پر دوسرے مقام میں بحث ہوچکی ہے۔
Top