Dure-Mansoor - Al-An'aam : 44
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا ذُكِّرُوْا : جو نصیحت کی گئی بِهٖ : اس کے ساتھ فَتَحْنَا : تو ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر اَبْوَابَ : دروازے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَرِحُوْا : خوش ہوگئے بِمَآ : اس سے جو اُوْتُوْٓا : انہیں دی گئی اَخَذْنٰهُمْ : ہم نے پکڑا ان کو بَغْتَةً : اچانک فَاِذَا : پس اس وقت هُمْ : وہ مُّبْلِسُوْنَ : مایوس رہ گئے
سو جب وہ اس نصیحت کو بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب وہ اس چیز پر اترے جو ان کو عطا کی گئی تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا۔ سو اس وقت ناامید ہو کر رہ گئے۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فلما نسوا ما ذکروا بہ یعنی ان لوگوں نے چھوڑ دیا جو ان کو یاد دلایا گیا تھا۔ (2) امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فتحنا علیھم ابواب کل شیء یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اور اپنے رسولوں کی طرف بلایا تو انہوں نے انکار کردیا اور اسے ان پر واپس لوٹا دیا۔ (3) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فتحنا علیھم ابواب کل شیء سے مراد ہے۔ پہلے زمانہ کے لوگوں کو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) عطا کی جانے والی دینوی خوشحالی اور اس کی راحتیں ہیں۔ (4) امام عبد الرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فتحنا علیھم ابواب کل شیء یعنی آسودگی اور رزق کی وسعت۔ (5) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت حتی اذا فرحوا بما اوتوا یعنی جب رزق میں سے دئیے گئے لفظ آیت اخذنھم بغتۃ فاذا ھم مبلسون یعنی ہلاک ہونے لگے اپنی حالت تبدیل ہونے کے سبب لفظ آیت فقطع دابر القوم الذین ظلموا یعنی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا۔ (6) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے محمد بن نصر الحارثی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت اخذنھم بغتۃ یعنی ان کو بیس سال مہلت دی گئی۔ (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فاذا ھم مبلسون یعنی مبلس سے مراد ایسی اذیت ناک اور پریشان کن مشقت ہے جس کے سبب ایسا شر ظاہر ہو جس کا ہٹایا نہ جاسکے اور مبلس زیادہ سخت ہے مستکبر سے اور لفظ آیت فقطع دابر القوم الذین ظلموا یعنی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ (8) امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فاذا ھم مبلسون یعنی وہ رنجیدہ ہوگئے اور دوسرے لفظ میں فرمایا ناامید ہوگئے۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ابلاس کا معنی ہے چہروں کا تبدیل کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے چہرہ کو تبدیل کردیا ہے اس لئے اس کا نام ابلیس ہے۔ (10) امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر اور طبرانی نے کبیر میں، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دنیا میں دے رہے ہیں اور وہ اپنے گناہوں پر قائم ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے تو یہ استدراج ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شیء اور وہ آیت جو اس کے بعد ہے۔ ظلم اور شر کسی عذاب کو دعوت دینا ہے (11) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی قوم کو باقی رکھنے اور بڑھانے کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان کو میانہ روی اور پاکبازی عطا فرماتے ہیں اور جب کسی قوم کو ختم کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان پر خیانت کا دروازہ کھول دیتے ہیں لفظ آیت حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذنھم بغتۃ فاذا ھم مبلسون فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العلمین (12) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جس پر وسعت کردی۔ اسے گمان نہ ہو۔ کوئی تدبیر کی جا رہی ہے تو اس کو کوئی دیکھنے والا نہیں اور جس پر تنگی کی گئی اور اسے یہ گمان نہ ہو کہ اس پر نظر رکھی پھر اس پر کوئی دیکھنے والا نہیں ہوگا پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شیء اور حسن نے فرمایا اور کسی قوم کے ساتھ مکریہ ہے اور کعبہ کے رب کی قسم ان کی حاجتیں ان کو دے دی جائیں اور پھر ان کو پکڑ لیا جائے۔ (13) امام ابن منذر نے جعفر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد کی طرف وحی کی۔ ہر حال میں مجھ سے ڈرو اور زیادہ ڈرو جب تمہارے اوپر میرے احسانات اور نعمتیں وافر ہوجائیں۔ اس وقت میں تم کو نہیں پچھاڑوں گا اور پھر تمہاری طرف نہیں دیکھوں گا۔ (14) بیہقی نے شعب میں ابو حازم (رح) سے روایت کیا کہ جب تو دیکھے کہ اللہ تعالیٰ لگاتار تجھ پر نعمتیں فرما رہے ہیں اور تو اس کی نافرمانی کر رہا ہے تو اس سے ڈرو۔ پھر فرمایا ہر وہ نعمت جو اللہ عزوجل سے قریب نہ کرے تو وہ آزمائش ہے۔ (15) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذنھم بغتۃ یعنی اللہ کے حکم کی قوم نے بغاوت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نہیں پکڑتے کسی قوم کو کبھی بھی مگر ان کے بےغم ہونے اور ان کی غفلت اور ان کی آسودہ حالی کے وقت۔ پس تم دھوکہ نہ کھاؤ اللہ کے بارے میں کیونکہ فاسق قوم ہی اس کے بارے میں دھوکہ کھاتی ہے۔ (16) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ربیع بن انس (رح) سے فرمایا کہ مچھر زندہ رہتا ہے جب تک بھوکا رہے۔ اور جب اس کا پیٹ بھرتا ہے تو اس کو موت آجاتی ہے۔ اس طرح ابن آدم جب دنیا کے سازوسامان سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت اس کو پکڑ لیتے ہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذنھم بغتۃ (17) امام طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت فقطع دابر القوم الذین ظلموا کے بارے میں پوچھا کہ مجھ کو اس بارے میں بتایئے تو انہوں نے فرمایا ان کی جڑیں کاٹ دی گئی اور ان کو بالکل ختم کردیا گیا، کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے زھیر کا قول نہیں سنا اور وہ کہتا ہے القائد الخیل منکو بادوا برھا محکومۃ بحکام العدوا لانفا ترجمہ : گھڑ سوار دستے کا فائدہ ہے جن کے پچھلے پاؤں زخمی ہیں انہیں چمڑے اور ریشم کی لگامیں دی گئی ہیں۔
Top