Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
پھر اگر کوئی مقروض تنگ دست ہے تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دے دو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لیے یہ عمل بہت ہی بہتر ہے کہ تم ایسے تنگ دست بھائی کو ادھار دیا ہوا بالکل ہی معاف کر دو یعنی بطور خیرات بخش دو
غریب اور نادار مقروض کے ساتھ مساھلت کا سلوک کرنے کی ہدایت 491: الربوا خوری کی انسانیت سوز حرکت سے توبہ کرلی ہے اور توبہ بھی سچے دل کی توبہ ہے تو اب غریب اور نادار مقروض کے ساتھ مساھلت کا سلوک کرو یعنی اگر تمہارا مدیوں تنگدست ہے کہ تمہارا قرض ادا کرنے پر فی الوقت قادر نہ ہو تو تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ اس کو فراخی اور آسودگی کے وقت تک مہلت دے دو اور اگر سمجھتے ہو کہ وہ اتنا غریب ہے کہ بظاہر کوئی صورت اس کی ادائیگی کی نظر نہیں آتی تو اپنا قرض معاف ہی کر دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہوگا کہ تم نے اس کی آسانی کا خیال رکھا ہے تو یقیناً تمہاری آسانی کا بھی قانون الٰہی میں خیال رکھا جائے گا۔ الربوا خوروں کی عادت تو یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی مدیون مفلس ہے اور معیاد مقرر پر وہ قرضہ اد نہیں کرسکتا تو ” الربوا “ کی رقم اصل زر میں جمع کر کے ” الربوا “ در ” الربوا “ کا سلسلہ چلاتے ہیں اور ” الربوا “ کی مقدار بھی اور بڑھا دیتے ہیں۔ لیکن احکم الحاکمین نے یہ قانون بنا دیا کہ اگر کوئی مدیون واقعی مفلس ہے اور ادائے قرض پر قادر نہیں تو اس کو تنگ کرنا جائز نہیں بلکہ اس کو اس وقت مہلت دینی چاہیے کہ جب تک وہ اد کرنے پر قادر نہ ہوجائے اور ساتھ ہی اس کی ترغیب بھی دی جائے کہ اس غریب کو اپنا قرض ہی معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے اور بھی بہتر ہے۔ اس جگہ معاف کرنے کو قرآن کریم نے بلفظ صدقہ تعبیر فرمایا ہے جس میں ارشاد ہے کہ یہ معانی تمہارے لیے بحکم صدقہ ہو کر موجب ثواب ہوگی پھر یہ جو فرمایا کہ معاف کردینا تمہارے ہی لیے زیادہ بہتر ہے حالانکہ بظاہر تو ان کے لیے نقصان کا سبب ہے کہ ” الربوا “ تو چھوڑا ہی تھا اصل زر بھی گیا لیکن قرآن کریم نے اس کو بہتر بتایا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ، پہلے تو یہ کہ یہ بہتری اس دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد مشاہدہ میں آجائے گی ، دنیا میں تمہیں اس عمل کی بہتری کا مشاہدہ ہوجائے گا کہ تمہارے مال میں اس طرح برکت ہوگی کہ تمہیں معلوم بھی نہیں ہوگا۔ برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تھوڑے مال میں بہت کام نکل جائیں ، یہ ضروری ہیں کہ مال کی مقدار یا تعداد بڑھ جائے اور یہ بات روزمرہ زندگی میں کئی بار مشاہدہ ہوجاتی ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والوں کے مال میں بیشمار برکت ہوتی ہے۔ ان کے تھوڑے مال سے اتنے کام نکل جاتے ہیں کہ حرام مال والوں کے بڑے بڑے اموال سے وہ کام نہیں نکلتے۔ اور جس مال میں بےبرکتی ہوتی ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے خرچ کرتا ہے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اور اکثر غیر مقصود چیزوں میں مثلاً دوا ، علاج اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایسے مالداروں کی بڑی رقمیں خرچ ہوجاتی ہیں جن کا غریبوں کو کبھی سابقہ نہیں پڑتا۔ اول تو اللہ تعالیٰ ان کو تندرستی کی نعمت عطا فرماتا ہے تاکہ علاج میں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے اور اگر کبھی بیماری آ بھی گئی تو معمولی اخراجات سے تندرستی حاصل ہوگئی۔ اس لیے مدیون مفلس کو قرض معاف کردینا جو بظاہر اس کے لیے نقصان دہ نظر آتا تھا قرآن کریم کی تعلیم کے پیش نظر وہ ایک مفید و نافع کام بن گیا۔ مفلس مدیون کے ساتھ نرمی و مساھلت کی تعلیم کے لیے احادیث صحیحہ میں جو ارشادات نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے درج ہیں ان کے چند جملے بھی آپ اپنی زبان سے سن لیجیے۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ : ” جو شخص یہ چاہے کہ اس کے سر پر اس روز اللہ کی رحمت کا سایہ ہو جب کہ اس کے سوا کسی کو کوئی سایہ سر چھپانے کے لیے نہ ملے گا تو اس کو چاہیے کہ تنگ دست مقروض کے ساتھ نرمی اور مساھلت کا معاملہ کرے یا اس کو بالکل ہی معاف کر دے “ بالکل اسی مضمون کی ایک حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص کسی مفلس مدیون کو مہلت دے گا تو اس کو ہر روز اتنی رقم کے صدقہ کا ثواب ملے گا جتنی اس مدیون کے ذمہ واجب ہے اور یہ حساب معیاد قرض پورا ہونے سے پہلے مہلت دینے کا ہے اور جب معیاد قرض پوری ہوجائے اور وہ شخص ادا کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت اگر کوئی مہلت دے گا تو اس کر ہر روز اس کی دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ “ (مرویات عثمان ح : 514) ایک حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص یہ چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو یا اس کی مصیبت دور ہو تو اس کو چاہیے کہ تنگ دست مدیون کو مہلت دیدے۔ “
Top