Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو ) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
(تفسیر) 280۔: (آیت)” وان کان ذواعسرۃ “۔ اگر کوئی تنگ دست ہو ) اگر کوئی تنگدسست قرض ہو ” کان “ کی خبر یہاں ذکر نہیں کی گئی کیونکہ اگر اسم نکرۃ ہو تو خبر کو ذکر نہ کرنا جائز ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ، ” ان کان رجلا صالحا فاکرمہ “ اور بعض نے کہا کہ ” کان بمعنی ” وقع “ کے ہے اس صورت میں کان خبر کا محتاج ہوگا ۔ ابو جعفر (رح) عسرۃ سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے (فنظرۃ پس مہلت دے) یہ مبتداء مؤخر ہے اور عبارت محذوف ہے ۔ ” فعلیہ نظرۃ “ (الی میسرۃ کشادگی تک) نافع نے سین کے ضمہ کے ساتھ ” میسرۃ “ اور دوسرے قراء نے سین کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے ، امام مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ سین کے ضمہ کے ساتھ ” میسرۃ “ اضافت کی وجہ سے اس کا معنی ” یسار وسعۃ “ ہے یعنی قرض خواہ پر وسعت اور کشادگی کرے (وان تصدقوا اور اگر تم معاف کر دو گے) تم قرض خواہ پر اصل مال معاف کر دو گے ، اس کی تنگی کی بناء پر (خیرلکم ان کنتم تعلمون “۔ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم کو خبر ہو) عاصم نے ” تصدقوا “ میں بغیر تشدید کے پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے صاد کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے ۔ تنگ دست کو ادائے قرض میں مہلت دینے کی فضیلت : حضرت ابوقتادہ ؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ آپ کسی شخص سے قرض کا مطالبہ کر رہے تھے وہ شخص چھپ گیا حضرت ابو قتادہ ؓ نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس شخص نے کہا تنگ دستی کی وجہ سے حضرت ابوقتادہ ؓ نے اس سے تنگدستی ہونے کی قسم لی تو اس نے قسم کھالی ، آپ نے چیک منگوا کر اس کر دے دیا اور فرمایا رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص تنگدست کو مہلت دے یا اس کے قرض کو معاف کر دے اللہ قیامت کے دن اس کو سختیوں سے محفوظ رکھے گا حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فرشتوں نے پہلی امتوں میں سے کسی شخص کی روح قبض کی اور اس سے پوچھا کہ کبھی تو نے کوئی نیک کام کیا ہے اس نے جواب دیا نہیں ، ملائکہ نے کہا کہ یاد کر ، اس نے کہا کہ میں نے کوئی نیکی نہیں کی ، ہاں اتنی بات ہے کہ جن لوگوں کو میں قرض دیا کرتا تھا اور میں نے اپنے کارندوں سے کہہ دیا تھا کہ تنگدست کو معاف کردیا کرو اور فراخدست کو مہلت دیا کرو ، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم بھی اس شخص سے درگزر کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے جھگڑا کیا حتی کہ اس نے جھگڑے میں مزید شدت اختیار کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس کو گھورنا پکڑنا چاہا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو اس بھائی کا حق مجھ پر ہے اس کے لیے ایک اونٹ خریدو اور اس کو عطا کر دو تو وہ کہنے لگا کہ میں اس سے افضل اونٹ لوں گا ، آپ ﷺ نے فرمایا ایسا ہی خرید کر دو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ایسا ہی خرید کردیا اور فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں اچھا ہو۔ قرض ادا کرنے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں مؤمن کا دل قرض کے ساتھ لٹکا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کو ادا نہ کر دے ، حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ ؓ انصاری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ جو شخص اللہ کے راستے میں شہید ہوجائے (ثابت قدمی پر) صبر کرتے ہوئے اور جہاد کے میدان میں پیٹھ بھی نہ پھیرے تو کیا اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ معاف فرما دیں گے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جی ہاں جب وہ شخص چلا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو دوبارہ بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر اس کو آواز دی گئی جب وہ شخص آگیا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ میں نے کیسے کہا اس بات دو دوبارہ لوٹاؤ ، پھر اس کی بات مکمل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا جی ہاں ! سب کچھ معاف ہوجائے گا مگر دین (قرض) معاف نہیں ہوگا ، اسی طرح جبرئیل (علیہ السلام) وحی لے کر آئے تھے۔
Top