Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 104
وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ
وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد لِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو اسْكُنُوا : تم رہو الْاَرْضَ : زمین (ملک) فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا وعدہ جِئْنَا : ہم لے آئینگے بِكُمْ : تم کو لَفِيْفًا : جمع کر کے
اور ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تھا اب اس سر زمین میں (فارغ البال ہو کر) بسو پھر جب آخرت کا وعدہ وقوع میں آجائے گا تو ہم تم سب کو اپنے حضور اکٹھا کرلیں گے
فرعونیوں کو غرق کرکے ہم نے اس زمین کو بنی اسرائیل کے سپرد کردیا : 122۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ مصر سے ہجرت کر گئے تھے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے ان کا پیچھا کیا اور واپس نہ آسکے وہیں غرق کرکے رکھ دیئے گئے بعد ازیں اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واپس آکر مصر میں رہنا ثابت نہیں اور یقینا وہ دوبارہ مصر تشریف لا کر آباد بھی نہ ہوئے تھے تاہم مصر کا انتظام بنی اسرائیل ہی کے سپرد کیا گیا جس طرح نبی اعظم وآخر ﷺ ہجرت کے بعد واپس مکہ مکرمہ جا کر رہائش پذیر نہ ہوئے لیکن اللہ نے مکہ فتح کرا دیا اور وہاں کا سارا نتظام آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں ہی کے سپرد کردیا گیا ، اسی طرح مصر کا انتظام موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم بنی اسرائیل ہی کے سپرد ہونا چاہئے تھا اور آپ ہی کے سپرد ہوا (آیت) ” فاذا جآء وعد الاخرۃ “۔ سے مراد کیا ہے ؟ اس وعدہ سے کئی ایک احتمالات بیان کئے گئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ سارے ہی صحیح ہیں مطلب یہ ہے کہ جس کو بھی مان لیا جائے مانا جاسکتا ہے ۔ آخرت کے وعدہ سے مراد قیامت تو عام طور پر جانا پہچانا ہے کیونکہ اس کا وعدہ ہر ایک نبی کی امت سے واضح اور بین ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کہانی کو چونکہ اس جگہ ختم کیا گیا اس لئے یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ اب تو دونوں فریقوں کے ساتھ جو کچھ ہونا طے تھا ہوگیا اب تو سب کو میدان حشر میں ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑا کردیا جائے گا تم میں سے ہر قسم کے لوگ مومن ‘ کافر ‘ نیک وبد سب کو مخلوط کر کے لائیں گے تاکہ تمہارا فیصلہ کیا جائے ، لیکن آنے والی آیت میں چونکہ (آیت) ” وبالحق انزلناہ وبالحق نزل “۔ کے الفاظ آرہے ہیں جس سے مراد نبی اعظم وآخر ﷺ ہی کی تشریف آوری اور آپ ﷺ پر پیغام الہی کا نزول ہے اس لئے (آیت) ” وعدالاخرۃ “۔ سے مراد آپ کا آنا بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ ؤپ کی بعثت کا ایک خاص وعدہ تھا جو دوسرے انبیاء کرام کی طرح موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی لیا گیا تھا اور اس کی تصدیق وتائید آنے والی آیت 108 بھی کررہی ہے جہاں (ان کان وعد ربنا مفعولا) کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس صورت میں اکٹھا کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم کو پاک سرزمین یعنی ارض مقدس سے آنے والے وقت میں بےدخل کردیا جائے گا اور یہ بھی کہ اس سلسلہ بنی اسرائیل کو ختم کرکے بنی اسمعیل کی طرف منتقل کردیا جائے گا اور وہاں لے جاکر اس سلسلہ نبوت کو بالکل ختم کردیا جائے گا ، گویا نبی اعظم وآخر ﷺ پر یہ وعدہ اپنے انجام اور اختتام کو پہنچ جائے گا اور یہی ہوا جس کا موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا گیا تھا :
Top