Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 104
وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ
وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد لِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو اسْكُنُوا : تم رہو الْاَرْضَ : زمین (ملک) فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا وعدہ جِئْنَا : ہم لے آئینگے بِكُمْ : تم کو لَفِيْفًا : جمع کر کے
اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم لوگ رہو بسو، اس زمین میں، پھر جب آپہنچے گا آخرت کے وعدے کا وقت، تو ہم لے آئیں گے تم سب کو اکٹھا کر کے،
192۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کیلئے انعام کا ذکر وبیان :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ رہو بسو تم اس سرزمین میں “۔ جس کو ہم نے ظاہری اور باطنی طرح طرح کی برکتوں سے نوازا ہے اور جو کہ ارض مقدسہ اور ارض مبارکہ کہلاتی ہے۔ یعنی ارض شام و فلسطین۔ (مراغی، و محاسن وغیرہ) سو اس طرح اس ارشاد ربانی سے فتح مکہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا کہ جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو سرزمین مصر سے نکالنے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں وہ اپنی قوم سمیت خود ہی غرقاب ہو کر فی النار والسقر ہوگیا اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی حضرت خاتم الانبیاء (علیہ الصلوۃ والسلام) اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو سرزمین مکہ سے نکال باہر کرنے پروگرام بنالیا تھا۔ مگر اس کے برعکس خود انہی کے اقتدار کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ سو اس کے کچھ ہی عرصہ بعد فتح مکہ کے ذریعے ایسے ہی ہوا۔ والحمد للہ۔ سو جو الفاظ حضرت موسیٰ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو ارض مصر سے نکالنے کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے تھے وہی آنحضرت ﷺ سے متعلق مشرکین مکہ کے بارے میں بھی ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ جیسا کہ اسی سورة کریمہ کی آیت نمبر 76 میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے وان کادوا لیستفزونک من الارض لیخرجوک منھا، چناچہ اس کے بموجب سرزمین مکہ کو مشرکین کے ناپاک قدموں سے ایسا پاک اور صاف کردیا گیا کہ ان کا ناپاک وجود وہاں سے ہمیشہ ہمیش کیلئے مٹ گیا اور توحید کا ہمیشہ کیلئے بول بالا ہوگیا۔ والحمد للہ رب العالمین۔ 193۔ بنی اسرائیل کیلئے دوسرے وعدے کا ذکر اور اس سے مقصود و مراد ؟:۔ سو ان سے ارشاد فرمایا گیا کہ پھر دوسری مرتبہ ہم پھر تم سب کو اکٹھا کرکے لائیں گے (اے یہودیو ! ) “ ارض محشر کی طرف جہاں تم اپنے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ پاؤگے۔ (روح، ابن کثیر، مراغی وغیرہ ) ۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک قول و احتمال ہے اور یہی قول زیادہ مشہور بھی ہے۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال اس بارے میں یہ بھی ہے کہ اس حشر سے مراد بنی اسرائیل کا ارض فلسطین ہی میں دوبارہ جمع ہونا ہے۔ جیسا کہ آج کل ہے ارض فلسطین میں یہود تمام اطراف اور اکناف عالم سے کھنچ کھنچ کر جمع ہورہے ہیں۔ جہاں ان پر دوسرا عذاب واقع ہوگا۔ رہ گئی یہ بار کہ وہ کب ؟ کس شکل میں ؟ کس طرح ؟ اور کن کے ہاتھوں ہوگا ؟ تو ان سب امور کا علم اللہ پاک ہی کو ہے۔ البتہ اتنی بات بطور اصول موضوعہ کے یاد رکھنے کی ہے کہ قوموں کے فیصلے دنوں اور مہینوں میں نہیں، صدیوں سالوں میں بدلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیمانے اور اس کا حساب بندوں کے پیمانوں سے بہت مختلف ہے۔ بندوں کی گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک دن کے برابر ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اس کی تصریح موجود ہے۔ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مماتعدون، (الحج : 47) ۔ 67 ء میں عرب اسرائیل جنگ میں جو عربوں کو نہایت ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا اور بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر یہود کے قبضے میں چلا گیا اور اب تک ان ہی کے ناپاک قبضے میں ہے۔ اور اس موقع پر اور اس بناء پر پورا عالم اسلام غم وغصہ میں ڈوب کر رہ گیا تھا، اس وقت یعنی آج سے کوئی تیس بتیس سال پہلے راقم آثم نے اس بارے میں مضمون لکھا تھا جو کہ مختلف اخبارات وغیرہ میں بھی شائع ہوا تھا اس میں راقم آثم نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی تھی کہ اس حشر سے مراد بنی اسرائیل کا وہی حشر ہے جو اسی دنیا میں ارض فلسطین میں ہوگا اور وقت آئے گا کہ یہ ارض فلسطین۔ انشاء اللہ العزیز۔ یہود بےبہبود کا اجتماعی قبرستان بنے گی۔ کیونکہ حشر کا جمع ہونا تو کوئی بنی اسرائیل کیلئے خاص نہیں بلکہ عام اور سب ہی کو شامل ہے کہ اس روز تو تمام اقوام عالم جمع ہونگی۔ نہ کہ صرف یہود۔ سو یہ ہماری رائے ہے والعلم عند اللہ سبحانہ وتعالیٰ وھو اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم فی کل باب۔
Top