Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 104
وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ
وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد لِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو اسْكُنُوا : تم رہو الْاَرْضَ : زمین (ملک) فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا وعدہ جِئْنَا : ہم لے آئینگے بِكُمْ : تم کو لَفِيْفًا : جمع کر کے
اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس ملک میں رہو سہو پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لے آئیں گے۔
وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا 104؀ۭ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ لفف قال تعالی: فَإِذا جاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] أي : منضمّا بعضکم إلى بعض . يقال : لَفَفْتُ الشیء لَفّاً ، وجاء وا ومن لَفَّ لِفَّهُمْ ، أي : من انضمّ إليهم، وقوله : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] أي : التفّ بعضها ببعض لکثرة الشّجر . قال : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] والْأَلَفُّ : الذي يتدانی فخذاه من سمنه، والْأَلَفُّ أيضا : السّمين الثقیل البطیء من الناس، ولَفَّ رأسه في ثيابه، والطّائر رأسه تحت جناحه، واللَّفِيفُ من الناس : المجتمعون من قبائل شتّى، وسمّى الخلیل کلّ كلمة اعتلّ منها حرفان أصليّان لفیفا . ( لف ) الففت الشئی لفا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مدغم کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے ۔ اور محاورہ ہے : جآء وا من لف لفھم یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے ۔ اور آیت کریمہ : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] اور گھنے گھنے باغ میں الفاف سے مراد ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں ۔ التف ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا ۔ قرآن میں ہے : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی سے پندلی لپٹ جائے گی ۔ الالف۔ وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی الف کہاجاتا ہے ۔ لف راسہ ۔ اس نے اپنے سر کو ( کپڑوں ) ۔۔۔ میں ) چھپالیا ۔ اللفیف۔ مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصل میں سے دو حرف علت ہوں ۔
Top