Fahm-ul-Quran - Al-Israa : 104
وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ
وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد لِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو اسْكُنُوا : تم رہو الْاَرْضَ : زمین (ملک) فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا وعدہ جِئْنَا : ہم لے آئینگے بِكُمْ : تم کو لَفِيْفًا : جمع کر کے
” اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اس سرزمین میں رہو، پھر جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔ “ (104)
فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل کو حکم۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سورة میں فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت کی اور اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا۔ جس میں پہلا حکم یہ تھا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز اور مشکل کشا نہ سمجھنا۔ سورة البقرۃ آیت 83، 84 میں اس فرمان کی تفصیل ہے ” ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کی خیر خواہی کرنا، لوگوں کو اچھی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکٰو ۃ ادا کرنا۔ لیکن تھوڑے لوگوں کے سوابنی اسرائیل کی اکثریت نے اس عہد سے منہ پھیرلیا “ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ آپس میں کشت وخون کرنے سے بچنا اور کمزور لوگوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔ بنی اسرائیل نے وعدہ کیا اور وہ اس پر گواہ ہیں۔ اس فرمان کے بعد انہیں یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ تم ضرور پہلے کی طرح ملک میں فساد اور انتہا درجے کی سرکشی کرو گے۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق پہلی مرتبہ تم پر اپنے سخت گیر بندے مسلط کرے گا۔ جو اس قدر سخت گیر ہوں گے کہ تمہیں قتل کرنے کے لیے تمہارے گھروں میں گھس جائیں گے۔ دوسری مرتبہ اپنے ایسے بندے تم پر غالب کرے گا کہ جو مار مار کر تمہارے چہرے بگاڑ دیں گے۔ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کریں گے۔ تفصیل جاننے کے لیے اسی سورة کی آیت 2 تا 8 اور بنی اسرائیل کی آیت 5 تا 7 کی تلاوت کریں۔ دنیا کی اس سز ا کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آخرت میں جمع کرے گا جس میں ہر کسی کا پورا پور احساب چکادیا جائے گا۔ مسائل 1۔ فرعون اور اس کے لشکر کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کو ان کی زمین کا وارث بنایا گیا۔ 2۔ قیامت کے دن سبھی لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔ فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو ان کی عزت رفتہ کا حوالہ دیتے ہوئے آخرت کا خوف دلاکر قرآن مجید کی دعوت، رسول کریم ﷺ کی رسالت اور منصب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں معراج کا ذکر فرماکر اہل مکہ کو بین السطور یہ سمجھایا گیا کہ تم جس قد رچاہو رسول اکرم ﷺ کی مخالفت کرلو۔ لیکن غور کرو کہ واقعہ معراج میں تمہارے لیے یہ سبق ہے کہ پیغمبر اور اس کی امت کا مستقبل روشن ہے یہ دنیا اور آخرت میں اس قدر ترقی پائیں گے کہ اے نبی کے مخالفو ! تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر کیا اور بنی اسرئیل کو ان کا ماضی یادد لانے کے بعد مسلسل ایسی ہدایات اور احکام نازل فرمائے۔ جن میں کفار کے ساتھ گاہے بگاہے اہل کتاب کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اب سورة کا اختتام کرنے سے پہلے کفار اور بنی اسرائیل دونوں کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قرآن جو حق کا ترجمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یعنی اس کتاب اور اس کے نزول کے کسی مرحلہ میں باطل کی آمیزش کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ اے رسول ! جو لوگ اس حق کو مانتے ہیں۔ آپ ان کو خوشخبری کا پیغام سنائیں اور جو حق کو نہیں مانتے آپ ان کو ان کے انجام سے ڈرائیں یہی آپ کے منصب کا تقاضا اور آپ کی تبلیغ کا خلاصہ ہے۔ اسی خاطر قرآن مجید کو ہم نے یکبارگی نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور سمجھائیں۔ مسائل 1۔ قرآن مجید کو حق کے ساتھ نازل کیا گیا۔ 2۔ آپ کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے بھیجا گیا۔ 3۔ قرآن مجیدکو بتدریج نازل کیا گیا۔ 4۔ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔
Top