Tafheem-ul-Quran - Nooh : 7
وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاۚ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں نے كُلَّمَا : جب کبھی دَعَوْتُهُمْ : میں نے پکارا ان کو لِتَغْفِرَ لَهُمْ : تاکہ تو بخش دے ان کو جَعَلُوْٓا : انہوں نے ڈال لیں اَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِيْٓ اٰذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں وَاسْتَغْشَوْا : اور اوڑھ لیے۔ ڈھانپ لیے ثِيَابَهُمْ : کپڑے اپنے وَاَصَرُّوْا : اور انہوں نے اصرار کیا وَاسْتَكْبَرُوا : اور تکبر کیا اسْتِكْبَارًا : تکبر کرنا
اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تُو انہیں معاف کر دے، 9 انہوں نے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے 10 اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبّر کیا۔ 11
سورة نُوْح 9 اس میں خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گار ہوں، کیونکہ اسی صورت میں ان کو اللہ تعالیٰ سے معافی مل سکتی تھی۔ سورة نُوْح 10 منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح ؑ کی بات سننا تو درکنار، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، یا پھر یہ حرکت وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائیں اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ آپ انہیں پہچان کر ان سے بات کرنے لگیں۔ یہ ٹھیک وہی طرز عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اختیار کر رہے تھے۔ سورة ہود آیت 5 میں ان کے اس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔ " دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ رسول سے چھپ جائیں۔ خبردار جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانکتے ہیں تو اللہ ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی، وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے "۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ہود، حواشی 5۔ 6)۔ سورة نُوْح 11 تکبر سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کرلینے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب میں سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبر کے ساتھ کلام نصیحت کو رد کرنا ہوگا۔
Top