Tafseer-e-Madani - Nooh : 7
وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاۚ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں نے كُلَّمَا : جب کبھی دَعَوْتُهُمْ : میں نے پکارا ان کو لِتَغْفِرَ لَهُمْ : تاکہ تو بخش دے ان کو جَعَلُوْٓا : انہوں نے ڈال لیں اَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِيْٓ اٰذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں وَاسْتَغْشَوْا : اور اوڑھ لیے۔ ڈھانپ لیے ثِيَابَهُمْ : کپڑے اپنے وَاَصَرُّوْا : اور انہوں نے اصرار کیا وَاسْتَكْبَرُوا : اور تکبر کیا اسْتِكْبَارًا : تکبر کرنا
اور میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو بخشش فرما دے ان کی (اے میرے مالک ! ) تو انہوں نے ٹھونس دیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹ لئے (اپنے اوپر) اپنے کپڑے اور وہ اڑ گئے (اپنے کفر و باطل پر) اور بپھر گئے اپنی (جھوٹی) بڑائی کے گھمنڈ میں بہت بری طرح سے1
9 پیغمبر (علیہ السلام) کے اخلاص و خیر خواہی کا ایک نمونہ و مظہر : سو حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور مزید عرض کیا کہ میں نے ان کو جب بھی بلایا تاکہ تو ان کی بخشش فرما دے اے میرے مالک۔ یعنی میری اس دعوت میں میرا ذاتی کوئی مفاد پیش نظر نہیں تھا بلکہ سراسر انہی کی بھلائی اور خیر خواہی مطلوب تھی اور یہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ایک امتیازی نشان ہوتا ہے کہ تبلیغ حق کے کام میں کوئی ذاتی غرض ان کے پیش نظر نہیں ہوتی اور ان کا صاف اور صریح طور پر اعلان ہوتا ہے " وما اسئلکم علیہ من اجر " " میری قوم کے لوگو ! میں تم سے تبلیغ حق کے اس کام پر کسی طرح کے کسی اجر و صلہ کا کوئی سوال نہیں کرتا۔ " میرا اجر وصلہ تو میرے رب ہی کے ذمے ہے اور بس " ان اجری الاعلی رب العلمین سو حضرات انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام جو بھی کچھ محنت کرتے ہیں، وہ پوری للہیت اور صدق و اخلاق کے ساتھ محض دوسروں کے بھلے اور بہتری کے لئے کرتے ہیں کہ لوگوں کا دوزخ کی طرف بڑھے چلے جانا ان قدسی صفت حضرات پر سخت گراں اور نہایت شاق ہوتا ہے علیھم الصلوۃ والسلام مگر حضرت نوح کے اس جذبہ عضر خوری اور دن رات کی اس دعوت کے باوجود وہ بدبخت قوم اپنے عناد اور ہٹ دھرمی ہی پر اڑ رہی ہے چناچہ حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور مزید عرض کیا کہ میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو ان کی بخشش فرمائے تو انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں، تاکہ حق و صداقت کی آواز ان کے کانوں میں پڑنے ہی نہ پائے سو ایسے بدبختوں کو نور حق و ہدایت سے سرفرازی کی توفیق کس طرح اور کیونکر مل سکتی ہے ؟ کہ اس کے لئے تو اولین شرط طلب صادق ہی ہے، سو میں نے تو ان کو اس لئے بلایا کہ یہ تیری رحمت و عنایت اور تیری مغفرت و بخشش کے حقدار بنیں، لیکن یہ ایسے محروم اور بدبخت اور شامت زدہ نکلے کہ انہوں نے میری بات کو سننا ہی گوارہ نہ کیا اور انہوں نے اپنے کانوں ہی کو بند کردیا۔ سو اس سے ان لوگوں کی محرومی اور بدبختی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح نے مزید عرض کیا کہ میں نے جب بھی ان کو دعوت دی انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھوس لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لیے۔ تاکہ میری شکل بھی نہ دیکھ سکیں اور میں ان کو پہچان بھی نہ سکوں، سبحان اللہ قوم کی بدبختی بھی ملاحظہ ہو اور اس کے باوجود پیغمبر کی شفقت و عنایت اور رحمت ورافت بھی، علیہ وعلیہ نبینا الصلوۃ والسلام ! بہرکیف اس ارشاد سے ان لوگوں خاص کر ان کے لیڈروں پلیڈروں اور ان کے سرداروں اور کھڑپنچوں کے حق سے عناد اور ان کی حق دشمنی و ہٹ دھرمی کی تصویر پیش کردی گئی کہ دعوت حق کے جواب میں وہ اپنے کپڑے لپیٹ کر وہاں سے چل دیئے۔ تو پھر ایسے میں ان کے لئے نر حق و ہدایت سے سرفرازی کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ والعیاذ باللہ العظیم اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین 10 استکبار محرومی کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح نے مزید عرض کیا کہ یہ لوگ سختی سے اڑے رہے اور اپنے کفر و باطل پر اور یہ مبتلا رہے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اور اپنے اس زعم اور گھمنڈ میں وہ بری طرح مبتلا رہے، جس کی بناء پر وہ لوگ صاف صاف کہتے تھے کہ نوح ہم تمہاری پیروی کس طرح کرسکتے ہیں جب کہ تمہارے پیرو کار سب سے رذیل لوگ ہیں۔ والعیاذ باللہ " انومن لک و اتبعک الارذلون " (الشعراء :111) اور اس طرح اپنی بڑائی کے گھمنڈ کے باعث وہ لوگ حق و ہدایت کے نور سے محروم ہو کر دائمی نقصان اور ابدی خسران سے ہمکنار ہوگئے۔ والعیاذ باللہ العظیم اور اسی بناء پر وہ اپنے کفر و باطل پر ایسے اڑ گئے کہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوئے سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ محرومی جی جڑ بنیاد ہے کہ ایسا انسان حق بات کو سننا اور ماننا اپنی توہین اور کسر شان سمجھنے لگتا ہے حالانکہ حق کے آگے سر تسلیم خم ہوجانا توہین اور کسر شان نہیں بلکہ سچی اور حقیقی عزت و عظمت سے سرفرازی کا پروانہ ہے۔ کیونکہ بندے کی عزت و عظمت کمال عبدیت سے وابستہ ہے۔ یعنی اس سے کہ وہ دل و جان سے اپنے خالق ومالک کے حضور جھک جائے اور ہمیشہ جھکا ہی رہے کیونکہ اسی میں اسی کا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس فانی زندگی پر بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں جو اس کے بعد آنے والا ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، و علی مایحب ویرید۔
Top