Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں۔ کہو”یہ رُوح میرے ربّ کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔“103
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 103 عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی ﷺ سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جاسکتے ہیں جبکہ سیاق وسباق کو نظر انداز کردیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بےربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے ؟ ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد " وحی " یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو ؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ ، تم سے یہ لوگ روح، یعنی ماخذ قرآن، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ انہیں بتادو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شہبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے۔ یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ سورة مومن میں ارشاد ہوا ہے " یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ (آیت 15)۔ " وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“۔ اور سورة شوریٰ میں فرمایا " وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ (آیت 52)۔ " اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے "۔ سلف میں سے ابن عباس ؓ ، قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ ابن جریر ؒ نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس ؓ اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ رحمہما اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ " روح سے مراد جبرائیل ؑ ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی ﷺ کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے "۔
Top