Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور آپ سے یہ روح کی بابت پوچھتے ہیں،124۔ آپ کہہ دیجیے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے (ہی) ہے،125۔ اور تمہیں علم تو بس تھوڑا ہی دیا گیا ہے،126۔
124۔ (کہ اس کی حقیقت وماہیت کیا ہے) یہ سوال کرنے والے یا تو مشرکین قریش تھے (جیسا کہ نسائی وترمذی کی روایتوں میں آیا ہے) اور یا یہود مدینہ تھے (جیسا کہ بخاری ومسلم کی روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے) بہر صورت سائل جو بھی ہوں سوال سے مقصود استفادہ اور اپنے جہل کا دور کرنا نہ تھا بلکہ مقصود امتحان تھا۔ 125۔ (اور اس لیے تمام دوسری مخلوقات کی طرح حادث وفانی ہے) قرآن کی اس مختصر وحکیمانہ، جامع ولفظی جواب نے ان تمام لاطائل بحثوں کی بےحاصلی ظاہر کردی جو صدیوں سے جاہلی فلاسفہ کے درمیان چلی آرہی تھیں۔ مثلا یہ کہ روح مجرد ہے یا مادی ؟ بسیط ہے یا مرکب ؟ جو ہر ہے یا عرض ؟ وغیرہا۔ روح کی حقیقت بھی منجملہ ان مسائل کے ہے جن کے باب میں اکثر مذاہب باطلہ کو ٹھوکر لگی ہے اور روح کا قدیم وغیرفانی ہونا تو بہت مشرکانہ مذاہب میں مسلم رہا ہے۔ چناچہ ہندوستان میں آریہ سماجیوں کے نام سے جو فرقہ انیسویں صدی مسیحی کی پیداوار ہے اور جو بت پرستی کا دشمن اور عقیدہ توحید کا مدعی ہے وہ بھی روح کی قدامت ہی کا قائل ہے۔ وہ خدا کی طرح پرش (روح) اور ہر کرنی (مادہ) کو بھی قدیم مانتا ہے۔ قرآن کا اصل مقصود اسی عقیدۂ روح پرستی پر ضرب لگانا ہے۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ 126۔ (اور حقیقت روح کا علم نہ تمہارے حدود فہم کے اندر ہے اور نہ تمہاری ضروریات دینی وعلمی میں داخل ہے۔ اس لئے تمہیں عطا بھی نہیں ہوا)
Top