Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے۔ْمتعلق
الرُّوْحِ
: روح
قُلِ
: کہ دیں
الرُّوْحُ
: روح
مِنْ اَمْرِ
: حکم سے
رَبِّيْ
: میرا رب
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ
: اور تمہیں نہیں دیا گیا
مِّنَ الْعِلْمِ
: علم سے
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلًا
: تھوڑا سا
اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو کہہ دے روح ہے میرے رب کے حکم سے اور تم کو علم دیا ہے تھوڑا سا
خلاصہ تفسیر
اور یہ لوگ آپ سے (امتحانا) روح (کی حقیقت) کو پوچھتے ہیں آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ روح (کے متعلق بس اتنا اجمالا سمجھ لو کہ وہ ایک چیز ہے جو) میرے رب کے سے بنی ہے اور (باقی اس کی مفصل حقیقت سو) تم کو بہت تھوڑا علم (بقدر تمہاری فہم اور ضرورت کے) دیا گیا ہے (اور روح کی حقیقت کا معلوم کرنا کوئی ضرورت کی چیز نہیں اور نہ اس کی حقیقت عام طور پر سمجھ میں آسکتی ہے اس لئے قرآن اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتا)
اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر آپ پر ہم نے وحی بھیجی ہے (اور اس کے ذریعہ آپ کو علم دیا ہے) سب سلب کرلیں پھر اس (وحی) کے (واپس لانے کے لئے) آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی بھی نہ ملے گا مگر (یہ) آپ کے رب ہی کی رحمت ہے (کہ ایسا نہیں کیا) بیشک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے (مطلب یہ ہے کہ انسان کو روح وغیرہ ہر چیز کی حقیقت کا تو کیا علم ہوتا اس کو جو تھوڑا سا علم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ بھی اس کی کوئی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو دینے کے بعد بھی سلب کرسکتا ہے مگر وہ اپنی رحمت سے ایسا کرتا نہیں وجہ یہ ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے) آپ فرما دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات کے لئے جمع ہوجاویں کہ ایسا قرآن بنا لاویں تب بھی وہ ایسا نہ کرسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاوے (یعنی ان میں سے ہر ایک الگ الگ کوشش کر کے تو کیا کامیاب ہوتا سب کے سب ایک دوسرے کی مدد سے کام کر کے بھی قرآن کا مثل نہیں بنا سکتے) اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اس قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیے ہیں پھر بھی اکثر لوگ بےانکار کئے نہ رہے۔
معارف و مسائل
آیات صدر میں پہلی آیت میں کفار کی طرف سے روح کے متعلق ایک سوال اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب مذکور ہے لفظ روح لغات و محاورات میں نیز قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے معروف و مشہور معنی تو وہی ہیں جو عام طور پر اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں یعنی جان جس سے حیات اور زندگی قائم ہے قرآن کریم میں یہ لفظ جبرئیل امین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بھی کئی آیات میں استعمال ہوا ہے اور خود قرآن کریم اور وحی کو بھی روح کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے (آیت) اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا روح سے مراد کیا ہے
اس لئے یہاں پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح کا سوال کس معنی کے لحاظ سے کیا تھا بعض حضرات مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وحی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرئیل کے متعلق قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن ہی کا ذکر ہے اس کے مناسب اس کو سمجھا کہ اس سوال میں بھی روح سے مراد وحی و قرآن یا جبرئیل ہی ہیں اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے کون لاتا ہے قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات جن کا سوال تھا وہ نہیں بتلائیں۔
لیکن احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو اس آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے وہ تقریبا اس میں صریح ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح حیوانی کا سوال کیا تھا اور مقصد سوال کا روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے بدن انسانی میں کس طرح آتی جاتی ہے اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوجاتا ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے غیر آباد حصے میں چل رہا تھا رسول کریم ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی کھجور کی شاخ کی تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمد ﷺ آ رہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو دوسروں نے منع کیا مگر سوال کرنے والوں نے سوال کر ہی ڈالا یہ سوال سن کر رسول کریم ﷺ لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ وقفہ کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح تھی ان لوگوں کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی کی حقیقت سے تھا رہا یہ معاملہ کی سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آیا ہے درمیان میں روح کا سوال جواب بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلی آیات میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن سے منظور رسول کریم ﷺ کا دربارہ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں خصوصا شان نزول کے متعلق ایک دوسری حدیث صحیح منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آگئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مطلب رسول کریم ﷺ کی رسالت کا امتحان لینا تھا۔
چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ (قریش مکہ جو جا بےجا سوالات رسول کریم ﷺ سے کرتے رہتے تھے ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہود تو علم والے ہیں ان کو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جاویں جن کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کا امتحان لیا جائے اس لئے قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود نے رسول کریم ﷺ سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے اس وقت تک رسول کریم ﷺ پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اس لئے اس وقت آپ نے فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (ابن کثیر ملحضا)
واقعہ سوال مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں
اس سے پہلے ایک بات اور قابل نظر ہے کہ شان نزول کے متعلق جو دو حدیثیں ابن مسعود و ابن عباس کی اوپر نقل کی گئیں ہیں ان میں سے ابن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق یہ واقعہ سوال مدینہ میں پیش آیا اور اسی لئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے کہ اگرچہ اکثر حصہ سورة بنی اسرائیل کا مکی ہے اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ مکرمہ کے واقعہ سے ہے اس کے مطابق یہ آیت بھی پوری سورت کی طرح مکی باقی رہتی ہے اسی لئے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود ؓ کی روایت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو جیسا کہ بہت سی آیات قرآن کا نزول مکرر سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اور تفسیر مظہری نے ابن مسعود ؓ کی روایت کو راجح قرار دے کر واقعہ مدینہ کا اور آیت کو مدنی قرار دیا ہے جس کی دو وجہ بتلائیں ایک یہ کہ یہ روایت صحیحین میں ہے اور سند اس کی روایت ابن عباس ؓ سے زیادہ قوی ہے دوسرے یہ کہ اس میں خود صاحب واقعہ ابن مسعود ؓ اپنا واقعہ بیان کر رہے بخلاف روایت ابن عباس ؓ کے کہ اس میں ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس ؓ نے یہ بات کسی سے سنی ہوگی ،
سوال مذکور کا جواب
قرآن کریم نے یہ دیا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلادی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لئے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی یہاں رسول کریم ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے اس جواب نے یہ تو واضح کردیا کہ روح کو عام مادیات پر قیاس کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور انسان کے لئے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دینوی کام اٹکا ہوا نہیں اس لئے وہ حصہ سوال فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا خصوصا جبکہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لئے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لئے بھی آسان نہیں۔
ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سائل کی دینی مصلحت کی رعایت لازم ہے
امام جصاص نے اس جواب سے یہ مسئلہ نکالا کہ مفتی اور عالم کے ذمہ یہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال اور اس کی ہر شق کا جواب ضرور دے بلکہ دینی مصالح پر نظر رکھ کر جواب دینا چاہئے جو جواب مخاطب کے فہم سے بالاتر ہو یا اس کے غلط فہمی میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے اسی طرح بےضرورت یا لایعنی سوالات کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے البتہ جس شخص کو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اس کو کچھ عمل کرنا لازم ہے اور خود وہ عالم نہیں تو مفتی اور عالم کو اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دینا ضروری ہے (جصاص) امام بخاری نے کتاب العلم میں اس مسئلے کا ایک مستقل ترجمۃ الباب رکھ کر بتلایا ہے کی جس سوال کے جواب سے مغالطہ میں پڑنے کا خطرہ ہو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔
روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں
قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیاحقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسول کریم ﷺ کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا مگر ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی لئے بہت سے علماء متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آخری دور میں ہمارے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لئے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔
فائدہ
امام بغوی نے اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد ﷺ ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جوان ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعویٰ نبوت کا وہ کر رہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد مدینہ علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دے دیاتو وہ نبی نہیں اس طرح تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دیا تیسری چیز کا جواب نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں وہ تین سوال یہ بتلائے کہ ایک تو ان سے ان لوگوں کا حال پوچھو جو قدیم زمانے میں شرک سے بچنے کے لئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے دوسرے اس شخص کا حال پوچھو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے تیسرے روح کے متعلق دریافت کرو۔
یہ وفد واپس آیا اور تینوں سوال رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کردیئے آپ نے فرمایا کہ میں اس کا جواب تمہیں کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن تک کی مختلف روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن ہوگئے جواب نہیں ملا رسول کریم ﷺ کو بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت سنائی جو اوپر مذکور ہوئی اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ جو سورة کہف میں آنے والا ہے اس کی آیات نازل ہوئیں جن میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جس حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا (جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی اس واقعہ کو ترمذی نے بھی مختصرا بیان کیا ہے (مظہری)
سورة حجر کی آیت نمبر 29 نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ کے تحت روح اور نفس وغیرہ کی حقیقت کے متعلق ایک تحقیق بحوالہ تفسیر مظہری پہلے گذر چکی ہے جس میں روح کی اقسام اور ہر ایک کی حقیقت کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔
Top