Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو کہہ دے روح ہے میرے رب کے حکم سے اور تم کو علم دیا ہے تھوڑا سا
خلاصہ تفسیر
اور یہ لوگ آپ سے (امتحانا) روح (کی حقیقت) کو پوچھتے ہیں آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ روح (کے متعلق بس اتنا اجمالا سمجھ لو کہ وہ ایک چیز ہے جو) میرے رب کے سے بنی ہے اور (باقی اس کی مفصل حقیقت سو) تم کو بہت تھوڑا علم (بقدر تمہاری فہم اور ضرورت کے) دیا گیا ہے (اور روح کی حقیقت کا معلوم کرنا کوئی ضرورت کی چیز نہیں اور نہ اس کی حقیقت عام طور پر سمجھ میں آسکتی ہے اس لئے قرآن اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتا)
اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر آپ پر ہم نے وحی بھیجی ہے (اور اس کے ذریعہ آپ کو علم دیا ہے) سب سلب کرلیں پھر اس (وحی) کے (واپس لانے کے لئے) آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی بھی نہ ملے گا مگر (یہ) آپ کے رب ہی کی رحمت ہے (کہ ایسا نہیں کیا) بیشک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے (مطلب یہ ہے کہ انسان کو روح وغیرہ ہر چیز کی حقیقت کا تو کیا علم ہوتا اس کو جو تھوڑا سا علم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ بھی اس کی کوئی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو دینے کے بعد بھی سلب کرسکتا ہے مگر وہ اپنی رحمت سے ایسا کرتا نہیں وجہ یہ ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے) آپ فرما دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات کے لئے جمع ہوجاویں کہ ایسا قرآن بنا لاویں تب بھی وہ ایسا نہ کرسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاوے (یعنی ان میں سے ہر ایک الگ الگ کوشش کر کے تو کیا کامیاب ہوتا سب کے سب ایک دوسرے کی مدد سے کام کر کے بھی قرآن کا مثل نہیں بنا سکتے) اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اس قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیے ہیں پھر بھی اکثر لوگ بےانکار کئے نہ رہے۔

معارف و مسائل
آیات صدر میں پہلی آیت میں کفار کی طرف سے روح کے متعلق ایک سوال اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب مذکور ہے لفظ روح لغات و محاورات میں نیز قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے معروف و مشہور معنی تو وہی ہیں جو عام طور پر اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں یعنی جان جس سے حیات اور زندگی قائم ہے قرآن کریم میں یہ لفظ جبرئیل امین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بھی کئی آیات میں استعمال ہوا ہے اور خود قرآن کریم اور وحی کو بھی روح کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے (آیت) اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا روح سے مراد کیا ہے
اس لئے یہاں پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح کا سوال کس معنی کے لحاظ سے کیا تھا بعض حضرات مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وحی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرئیل کے متعلق قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن ہی کا ذکر ہے اس کے مناسب اس کو سمجھا کہ اس سوال میں بھی روح سے مراد وحی و قرآن یا جبرئیل ہی ہیں اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے کون لاتا ہے قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات جن کا سوال تھا وہ نہیں بتلائیں۔
لیکن احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو اس آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے وہ تقریبا اس میں صریح ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح حیوانی کا سوال کیا تھا اور مقصد سوال کا روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے بدن انسانی میں کس طرح آتی جاتی ہے اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوجاتا ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے غیر آباد حصے میں چل رہا تھا رسول کریم ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی کھجور کی شاخ کی تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمد ﷺ آ رہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو دوسروں نے منع کیا مگر سوال کرنے والوں نے سوال کر ہی ڈالا یہ سوال سن کر رسول کریم ﷺ لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ وقفہ کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح تھی ان لوگوں کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی کی حقیقت سے تھا رہا یہ معاملہ کی سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آیا ہے درمیان میں روح کا سوال جواب بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلی آیات میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن سے منظور رسول کریم ﷺ کا دربارہ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں خصوصا شان نزول کے متعلق ایک دوسری حدیث صحیح منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آگئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مطلب رسول کریم ﷺ کی رسالت کا امتحان لینا تھا۔
چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ (قریش مکہ جو جا بےجا سوالات رسول کریم ﷺ سے کرتے رہتے تھے ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہود تو علم والے ہیں ان کو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جاویں جن کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کا امتحان لیا جائے اس لئے قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود نے رسول کریم ﷺ سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے اس وقت تک رسول کریم ﷺ پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اس لئے اس وقت آپ نے فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (ابن کثیر ملحضا)
واقعہ سوال مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں
اس سے پہلے ایک بات اور قابل نظر ہے کہ شان نزول کے متعلق جو دو حدیثیں ابن مسعود و ابن عباس کی اوپر نقل کی گئیں ہیں ان میں سے ابن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق یہ واقعہ سوال مدینہ میں پیش آیا اور اسی لئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے کہ اگرچہ اکثر حصہ سورة بنی اسرائیل کا مکی ہے اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ مکرمہ کے واقعہ سے ہے اس کے مطابق یہ آیت بھی پوری سورت کی طرح مکی باقی رہتی ہے اسی لئے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود ؓ کی روایت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو جیسا کہ بہت سی آیات قرآن کا نزول مکرر سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اور تفسیر مظہری نے ابن مسعود ؓ کی روایت کو راجح قرار دے کر واقعہ مدینہ کا اور آیت کو مدنی قرار دیا ہے جس کی دو وجہ بتلائیں ایک یہ کہ یہ روایت صحیحین میں ہے اور سند اس کی روایت ابن عباس ؓ سے زیادہ قوی ہے دوسرے یہ کہ اس میں خود صاحب واقعہ ابن مسعود ؓ اپنا واقعہ بیان کر رہے بخلاف روایت ابن عباس ؓ کے کہ اس میں ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس ؓ نے یہ بات کسی سے سنی ہوگی ،
سوال مذکور کا جواب
قرآن کریم نے یہ دیا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلادی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لئے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی یہاں رسول کریم ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے اس جواب نے یہ تو واضح کردیا کہ روح کو عام مادیات پر قیاس کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور انسان کے لئے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دینوی کام اٹکا ہوا نہیں اس لئے وہ حصہ سوال فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا خصوصا جبکہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لئے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لئے بھی آسان نہیں۔
ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سائل کی دینی مصلحت کی رعایت لازم ہے
امام جصاص نے اس جواب سے یہ مسئلہ نکالا کہ مفتی اور عالم کے ذمہ یہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال اور اس کی ہر شق کا جواب ضرور دے بلکہ دینی مصالح پر نظر رکھ کر جواب دینا چاہئے جو جواب مخاطب کے فہم سے بالاتر ہو یا اس کے غلط فہمی میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے اسی طرح بےضرورت یا لایعنی سوالات کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے البتہ جس شخص کو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اس کو کچھ عمل کرنا لازم ہے اور خود وہ عالم نہیں تو مفتی اور عالم کو اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دینا ضروری ہے (جصاص) امام بخاری نے کتاب العلم میں اس مسئلے کا ایک مستقل ترجمۃ الباب رکھ کر بتلایا ہے کی جس سوال کے جواب سے مغالطہ میں پڑنے کا خطرہ ہو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔
روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں
قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیاحقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسول کریم ﷺ کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا مگر ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی لئے بہت سے علماء متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آخری دور میں ہمارے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لئے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔
فائدہ
امام بغوی نے اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد ﷺ ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جوان ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعویٰ نبوت کا وہ کر رہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد مدینہ علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دے دیاتو وہ نبی نہیں اس طرح تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دیا تیسری چیز کا جواب نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں وہ تین سوال یہ بتلائے کہ ایک تو ان سے ان لوگوں کا حال پوچھو جو قدیم زمانے میں شرک سے بچنے کے لئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے دوسرے اس شخص کا حال پوچھو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے تیسرے روح کے متعلق دریافت کرو۔
یہ وفد واپس آیا اور تینوں سوال رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کردیئے آپ نے فرمایا کہ میں اس کا جواب تمہیں کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن تک کی مختلف روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن ہوگئے جواب نہیں ملا رسول کریم ﷺ کو بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت سنائی جو اوپر مذکور ہوئی اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ جو سورة کہف میں آنے والا ہے اس کی آیات نازل ہوئیں جن میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جس حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا (جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی اس واقعہ کو ترمذی نے بھی مختصرا بیان کیا ہے (مظہری)
سورة حجر کی آیت نمبر 29 نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ کے تحت روح اور نفس وغیرہ کی حقیقت کے متعلق ایک تحقیق بحوالہ تفسیر مظہری پہلے گذر چکی ہے جس میں روح کی اقسام اور ہر ایک کی حقیقت کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔
Top