Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔
ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ۔۔ : عبداللہ بن مسعود ؓ کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بعض یہود کے روح سے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ دیکھیے بخاری، العلم، باب قول اللہ تعالیٰ : (وما أوتیتم من العلم إلا قلیلا) : 125۔ مسلم : 2794 ] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، مگر یہ سورت مکی ہے اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قریش نے یہود سے کہا : (أَعْطُوْنَا شَیْءًا نَسْأَلُ عَنْہُ ہٰذَا الرَّجُلَ ، فَقَالُوْا سَلُوْہُ عَنِ الرُّوْحِ ، فَسَأَلُوْہُ ، فَنَزَلَتْ : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا) [ الإسراء : 85] قَالُوْا أُوْتِیْنَا عِلْمًا کَثِیْرًا، أُوْتِیْنَا التَّوْرَاۃَ ، وَمَنْ أُوْتِيَ التَّوْرَاۃَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَیْرًا کَثِیْرًا، قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ) [ الکھف : 109]) ”ہمیں کوئی چیز دو جس کے متعلق ہم اس آدمی سے سوال کریں ؟“ تو انھوں نے کہا : ”اس سے روح کے متعلق پوچھو۔“ چناچہ انھوں نے آپ سے پوچھا تو یہ آیت اتری : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا) انھوں نے کہا : ”ہمیں تو کثیر علم عطا کیا گیا ہے، کیونکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔“ ابن عباس نے فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ) [ مسند أحمد : 1؍255، ح : 2313، وصححہ الألبانی ] ابن کثیر ؓ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ یہ آیت پہلے مکہ میں اتری ہو (کیونکہ یہ سورت مکی ہے) پھر دوبارہ مدینہ میں اتری ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ میں جب یہودیوں نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی ہو کہ آپ یہ آیت پڑھ کر سنائیں۔ روح کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے، مثلاً وحی (مومن : 15) ، قوت و ثابت قدمی (مجادلہ : 22) جبریل ؑ (شعراء : 193) ، قرآن (شوریٰ : 52) اور مسیح ؑ (نساء : 171) زیر تفسیر آیت میں روح سے مراد وہ چیز ہے جس سے بدن کو زندگی حاصل ہوتی ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا ہے، کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ فرمایا ان سے کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے، یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مرگیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ اس میں نکتہ یہ بھی ہے کہ جب آدمی اللہ کے حکم سے پیدا ہونے والی اس مخلوق کی حقیقت نہیں جانتا، جو خود اس میں رہتی ہے تو وہ خالق کی حقیقت کیسے جان سکتا ہے ؟ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا : اس مفہوم کی طرف سورة کہف (109) اور لقمان (27) میں بھی اشارہ ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صرف وہ باتیں بتائی ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے اور جو انسانی عقل و فکر میں آسکتی ہیں، اگرچہ انسانی فکر کے سوچنے پر کوئی پابندی نہیں، مگر اسے اپنی حدود میں رہنا لازم ہے۔ انسان نے ایسی ایسی ایجادات کیں جو بیان سے باہر ہیں مگر وہ اس راز (روح) کی حقیقت کو پانے سے عاجز رہا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز اور غیب کی چیز ہے، جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے ؟ کیسے آئی ؟ اور کس طرح جاتی ہے ؟ کہاں سے آئی اور کہاں جاتی ہے ؟ مخلوق کو صرف اتنا معلوم ہے جتنا اس علیم وخبیر نے بتایا ہے، اس سے آگے سب بےبس ہیں اور سب کا علم اللہ کے مقابلے میں اتنا ہے جتنا سمندر میں سے پرندے کی چونچ میں آنے والا پانی۔
Top